ٹیگ کے محفوظات: دلوں

وہ خاک لے گا مِری خامیوں میں دلچسپی

فلک نے لی ہے سدا کامِلوں میں دِلچسپی
وہ خاک لے گا مِری خامیوں میں دلچسپی
میں بحرِ زیست میں خُوش ایک موجِ آوارَہ
جسے کبھی نہ رہی ساحلوں میں دِلچسپی
عجیب لوگ ہیں ہم بے نیازِ مقتولین
ہمیں رہی ہے فقَط قاتلوں میں دِلچسپی
جنابِ میرؔ نے کیِں اُس سے اِس قَدَر باتیں
کہ چاند لینے لگا باولوں میں دِلچسپی
مَزید ہو مِرے قارونِ حُسن کی دَولت
اُسے سَدا سے ہے ہم سائلوں میں دِلچسپی
ہماری سادگیِ دِل کا مَشوَرَہ یہ ہے
حضور! لیجیے سادَہ دِلوں میں دِلچسپی
سکونِ قلب و نظر ہی نہ جب رَہا ضامنؔ
ہمَیں بھی پِھر نہ رہی محفلوں میں دِلچسپی
ضامن جعفری

بہار ایک خلش سی دلوں میں چھوڑ گئی

اُداسیوں کا سماں محفلوں میں چھوڑ گئی
بہار ایک خلش سی دلوں میں چھوڑ گئی
بچھڑ کے تجھ سے ہزاروں طرف خیال گیا
تری نظر مجھے کن منزلوں میں چھوڑ گئی
کہاں سے لایئے اب اُس نگاہ کو ناصرؔ
جو ناتمام امنگیں دلوں میں چھوڑ گئی
ناصر کاظمی

کہ دوستوں میں، کبھی دشمنوں میں ہوتے ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 71
جو سادہ دل ہوں بڑی مشکلوں میں ہوتے ہیں
کہ دوستوں میں، کبھی دشمنوں میں ہوتے ہیں
ہوا کے رخ پہ کبھی بادباں نہیں رکھتے
بلا کے حوصلے دریا دلوں میں ہوتے ہیں
پلٹ کے دیکھ ذرا اپنے رہ نوردوں کو
جو منزلوں پہ نہ ہوں راستوں میں ہوتے ہیں
پیمبروں کا نسب شاعروں سے ملتا ہے
فراز ہم بھی انہیں سلسلوں میں ہوتے ہیں
احمد فراز