ٹیگ کے محفوظات: در

اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آگئے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 179
خانۂ درد ترے خاک بہ سر آگئے ہیں
اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آگئے ہیں
جان و دل کب کے گئے ناقہ سواروں کی طرف
یہ بدن گرد اڑانے کو کدھر آگئے ہیں
رات دن سوچتے رہتے ہیں یہ زندانیِ ہجر
اس نے چاہا ہے تو دیوار میں در آگئے ہیں
اس کے ہی ہاتھ میں ہے شاخِ تعلق کی بہار
چھو لیا ہے تو نئے برگ و ثمر آگئے ہیں
ہم نے دیکھا ہی تھا دُنیا کو ابھی اس کے بغیر
لیجئے بیچ میں پھر دیدۂ تر آگئے ہیں
اتنا آسان نہیں فیصلۂ ترکِ سفر
پھر مری راہ میں دو چار شجر آگئے ہیں
نیند کے شہر طلسمات میں دیکھیں کیا ہے
جاگتے میں تو بہت خواب نظر آگئے ہیں
عرفان صدیقی

میری پگڑی گر گئی لیکن مرا سر بچ گیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 79
اک ذرا خم ہو کے میں پیشِ ستم گر بچ گیا
میری پگڑی گر گئی لیکن مرا سر بچ گیا
زندہ رہنے کی خوشی کس لاش سے مل کر مناؤں
کس کھنڈر کو جاکے مژدہ دوں مرا گھر بچ گیا
پیاس کے صحرا میں بچوں پر جو کچھ بیتی نہ پوچھ
ہاں خدا کا شکر‘ بازوئے برادر بچ گیا
سچ تو یہ ہے دوستو‘ بیکار ہیں سارے حصار!
لوگ گھر میں لٹ گئے‘ میں گھر کے باہر بچ گیا
چاہیے کوئی نہ کوئی راستہ سیلاب کو
سرپھری دیوار آخر بہ گئی‘ در بچ گیا
زندگی کا مول وہ بھی اس سے کم کیا مانگتے
میں بھی اپنے قاتلوں کو جان دے کر بچ گیا
عرفان صدیقی

ان خرابوں سے تو اچھا تھا وہ گھر جیسا بھی تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 56
تھا کہیں اک حاصلِ رنجِ سفر جیسا بھی تھا
ان خرابوں سے تو اچھا تھا وہ گھر جیسا بھی تھا
اب تو یہ پرچھائیاں پہچان میں آتیں نہیں
ان میں اک چہرہ چراغِ بام و در جیسا بھی تھا
دل کی بے رنگی سے بہتر تھی لہو کی ایک بوند
وہ بھی اک سرمایہ تھا اے چشمِ تر جیسا بھی تھا
خاک تھا اپنا بدن آخر بکھرنا تھا اسے
ہاں مگر اس خاک میں کچھ گنجِ زر جیسا بھی تھا
کچھ ہواؤں کا بھی اندازہ نہ تھا پہلے ہمیں
اور کچھ سر میں غرورِ بال و پر جیسا بھی تھا
کون مانے گا کہ اس ترکِ طلب کے باوجود
پہلے ہم لوگوں میں کچھ سودائے سر جیسا بھی تھا
عرفان صدیقی

عزیزو، میرا گھر ایسا نہیں تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 51
خرابہ تھا مگر ایسا نہیں تھا
عزیزو، میرا گھر ایسا نہیں تھا
اندھیرا تھا مری گلیوں میں لیکن
پسِ دیوار و در ایسا نہیں تھا
زمیں نامہرباں اتنی نہیں تھی
فلک حدِ نظر ایسا نہیں تھا
کوئی اُونچا نہیں اُڑتا تھا، پھر بھی
کوئی بے بال و پر ایسا نہیں تھا
قفس میں جس طرح چپ ہے یہ طائر
سرِ شاخِ شجر ایسا نہیں تھا
کوئی آزار تھا پہلے بھی دل کو
مگر اے چارہ گر، ایسا نہیں تھا
نہیں تھا میں بھی اتنا بے تعلق
کہ تو بھی بے خبر ایسا نہیں تھا
اس انجامِ سفر پر کیا بتاؤں
کہ آغازِ سفر ایسا نہیں تھا
مرے خوابوں کے دریا خشک ہوجائیں
نہیں‘ اے چشمِ تر‘ ایسا نہیں تھا
یہ آسودہ جو ہے‘ میری ہوس ہے
مرا سودائے سر ایسا نہیں تھا
عرفان صدیقی

اچانک جی اٹھیں وہ بام و در ایسا نہیں ہو گا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 40
خرابہ ایک دن بن جائے گھر ایسا نہیں ہو گا
اچانک جی اٹھیں وہ بام و در ایسا نہیں ہو گا
وہ سب اک بجھنے والے شعلۂ جاں کا تماشا تھا
دوبارہ ہو وہی رقصِ شرر ایسا نہیں ہو گا
وہ ساری بستیاں وہ سارے چہرے خاک سے نکلیں
یہ دُنیا پھر سے ہو زیر و زبر ایسا نہیں ہو گا
مرے گم گشتگاں کو لے گئی موجِ رواں کوئی
مجھے مل جائے پھر گنجِ گہر ایسا نہیں ہو گا
خرابوں میں اب ان کی جستجو کا سلسلہ کیا ہے
مرے گردوں شکار آئیں ادھر ایسا نہیں ہو گا
ہیولے رات بھر محراب و در میں پھرتے رہتے ہیں
میں سمجھا تھا کہ اپنے گھر میں ڈر ایسا نہیں ہو گا
میں تھک جاؤں تو بازوئے ہوا مجھ کو سہارا دے
گروں تو تھام لے شاخِ شجر ایسا نہیں ہو گا
کوئی حرفِ دُعا میرے لیے پتوار بن جائے
بچا لے ڈوبنے سے چشمِ تر ایسا نہیں ہو گا
کوئی آزار پہلے بھی رہا ہو گا مرے دل کو
رہا ہو گا مگر اے چارہ گر ایسا نہیں ہو گا
بحدِ وسعتِ زنجیر گردش کرتا رہتا ہوں
کوئی وحشی گرفتارِ سفر ایسا نہیں ہو گا
بدایوں تیری مٹّی سے بچھڑ کر جی رہا ہوں میں
نہیں اے جانِ من، بارِ دگر ایسا نہیں ہو گا
عرفان صدیقی

اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 32
طوفاں میں تا بہ حد نظر کچھ نہیں بچا
اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا
کچھ خاک تھی سو وقت کی آندھی میں اُڑ گئی
آخر نشان سوز جگر کچھ نہیں بچا
ہر شئے کو ایک سیل بلاخیز لے گیا
سودا نہ سر، چراغ نہ در، کچھ نہیں بچا
سب جل گیا جو تھا ہمیں پیارا جہان میں
خوشبو نہ گل، صدف نہ گہر، کچھ نہیں بچا
مٹی بھی نذر حسرت تعمیر ہو گئی
گھر میں سوائے برق و شرر کچھ نہیں بچا
اُس پار ساحلوں نے سفینے ڈبو دیے
سب کچھ بچا لیا تھا مگر کچھ نہیں بچا
یا بازوئے ستم میں ہے یہ تیغ آخری
یا دست کشتگاں میں ہنر کچھ نہیں بچا
ڈرتے رہے تو موج ڈراتی رہی ہمیں
اَب ڈوب جائیے کہ خطر کچھ نہیں بچا
کچھ نقدِ جاں سفر میں لٹانا بھی ہے ضرور
کیا کیجئے کہ زادِ سفر کچھ نہیں بچا
یہ کاروبارِ عرضِ تمنا فضول ہے
دل میں لہو، دُعا میں اثر کچھ نہیں بچا
اب اور کوئی راہ نکالو کہ صاحبو
جس سمت جا رہے تھے اُدھر کچھ نہیں بچا
یہ کون چیختا ہے اگر مر گیا ہوں میں
یہ کیا تڑپ رہا ہے اگر کچھ نہیں بچا
عرفان صدیقی

آج کے اخبار میں کل کی خبر کیا دیکھنا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 22
دست قاتل کیا کٹے اے چشم تر کیا دیکھنا
آج کے اخبار میں کل کی خبر کیا دیکھنا
کچھ تو چٹانوں سے نکلے جوئے خوں یا جوئے شیر
پتھروں کے بیچ رہنا ہے تو سر کیا دیکھنا
ہم نے خود بن باس لینے کا کیا تھا فیصلہ
یار اب مڑ مڑ کے سوئے بام و در کیا دیکھنا
اپنے ہی جوش نمو میں رقص کرنا چاہیے
راستہ جھونکوں کا اے شاخ شجر کیا دیکھنا
اب کدھر سے وار ہو سکتا ہے یہ بھی سوچئے
کل جدھر سے تیر آیا تھا اُدھر کیا دیکھنا
عرفان صدیقی

کیا تم نے اجالوں کا سفر بند کیا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 606
مانا مرے سورج کو نظر بند کیا ہے
کیا تم نے اجالوں کا سفر بند کیا ہے
جسموں کیلئے تم نے اٹھائی ہیں فصیلیں
بتلاؤ کہ احساس کا در بند کیا ہے
ہر روز نکلتا ہے بڑی شان سے سورج
راتوں نے کہاں بابِ سحر بند کیا ہے
کمبخت چہکتے ہوئے رازوں کی امیں تھی
اس واسطے بوتل کو بھی سر بند کیا ہے
اب لوٹ کے جاتا نہیں یادوں کی گلی میں
گم گشتہ زمانوں میں گزر بند کیا ہے
اب خواب میں بھی کوئی کسی سے نہیں ملتا
اس عہد نے جذبوں کا سفر بند کیا ہے
کچھ دن تو درِ دل بھی مقفل کرو منصور
دروازہ روابط کا اگر بند کیا ہے
منصور آفاق

ہم لوگ سدھارتھ کے کھلے در کی طرح ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 363
لٹنے کو خزانوں بھرے مندر کی طرح ہیں
ہم لوگ سدھارتھ کے کھلے در کی طرح ہیں
ہم حرفِ زمیں ، چیختی صدیوں کی امانت
گم گشتہ ثقافت کے سخنور کی طرح ہیں
ہم پھول کنول کے ہیں ہمیں نقش کھنڈر کے
آثارِ قدیمہ کے پیمبر کی طرح ہیں
فرعون کے اہرام بھی موسیٰ کا عصا بھی
ہم نیل کی تہذیب کے منظر کی طرح ہیں
آدم کے ہمی نقشِ کفِ پا ہیں فلک پر
کعبہ میں ہمی عرش کے پتھر کی طرح ہیں
ہم گنبد و مینار ہوئے تاج محل کے
ہم قرطبہ کے سرخ سے مرمر کی طرح ہیں
ہم عہدِ ہڑپہ کی جوانی پہ شب و روز
دیواروں میں روتی ہوئی صرصر کی طرح ہیں
منصور آفاق

عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 292
آئینہ کون ہے کچھ اپنی خبر ہو تو کہوں
عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں
اُس تجلی پہ کوئی نظم کوئی تازہ غزل
مہرباں قوسِ قزح بار دگر ہو تو کہوں
درد کے طے یہ مراحل تو ہوئے ہیں لیکن
قطرہ پہ گزری ہے کیا، قطرہ گہر ہو تو کہوں
ہمسفر میرا پتہ پوچھتے کیا ہو مجھ سے
کوئی بستی، کوئی چوکھٹ، کوئی در ہو تو کہوں
کوئی شہ نامہء شب، کوئی قصیدئہ ستم
معتبر کوئی کہیں صاحبِ زر ہو تو کہوں
قیس صحرا میں مجھے ساتھ تو لے جائے گا
آتشِ غم کا کوئی زادِ سفر ہو تو کہوں
کیسے لگتی ہے مجھے چلتی ہوئی بادِ سحر
کبھی برفائی ہوئی رات بسر ہو تو کہوں
یہ پرندے تو ہیں گل پوش رتوں کے ساتھی
موسمِ زرد میں آباد شجر ہو تو کہوں
کون بے چہرگیِ وقت پہ تنقید کرے
سر بریدہ ہے یہ دنیا، مرا سر ہو تو کہوں
رات آوارہ مزاجی کا سبب پوچھتی ہے
کیا کروں کوئی ٹھکانہ کوئی گھر ہو تو کہوں
کشتیاں کیوں بھری آتی ہیں بجھے گیتوں سے
کیا ہے اس پار مجھے کوئی خبر ہو تو کہوں
ایک ہی پیڑ بہت ہے ترے صحرا میں مجھے
کوئی سایہ سا، کوئی شاخِ ثمر ہو تو کہوں
دہر پھولوں بھری وادی میں بدل سکتا ہے
بامِ تہذیب پہ امکانِ سحر ہو تو کہوں
زندگی رنگ ہے خوشبو ہے لطافت بھی ہے
زندہ رہنے کا مرے پاس ہنر ہو تو کہوں
میں تماشا ہوں تماشائی نہیں ہو سکتا
آئینہ خانہ سے کوئی مجھے ڈر ہو تو کہوں
سچ کے کہنے سے زباں آبلہ لب ہوتی ہے
سینہء درد میں پتھر کا جگر ہو تو کہوں
میری افسردہ مزاجی بھی بدل سکتی ہے
دل بہاروں سے کبھی شیر و شکر ہو تو کہوں
تُو بجھا سکتی ہے بس میرے چراغوں کو ہو ا
کوئی مہتاب ترے پیشِ نظر ہو تو کہوں
رائیگانی کا کوئی لمحہ میرے پاس نہیں
رابطہ ہجر کا بھی زندگی بھر ہو تو کہوں
پھر بلایا ہے کسی نیلے سمندر نے مجھے
کوئی گرداب کہیں کوئی بھنور ہو تو کہوں
پھر تعلق کی عمارت کو بنا سکتا ہوں
کوئی بنیاد کہیں کوئی کھنڈر ہو تو کہوں
عید کا چاند لے آیا ہے ستم کے سائے
یہ بلائیں ہیں اگر ماہِ صفر ہو تو کہوں
اس پہ بھی ترکِ مراسم کی قیامت گزری
کوئی سسکاری کوئی دیدئہ تر ہو تو کہوں
ایک مفروضہ جسے لوگ فنا کہتے ہیں
"یہ تو وقفہ ہے کوئی ، ان کو خبر ہو تو کہوں
کتنے جانکاہ مراحل سے گزر آئی ہے
نرم و نازک کوئی کونپل جو ثمر ہو تو کہوں
یہ محبت ہے بھری رہتی ہے بھونچالوں سے
جو اُدھر ہے وہی تخریب اِدھر ہو تو کہوں
مجھ کو تاریخ کی وادی میں سدا رہنا ہے
موت کے راستے سے کوئی مفر ہو تو کہوں
آسماں زیرِ قدم آ گئے میرے لیکن
قریہء وقت کبھی زیر و زبر ہو تو کہوں
ختم نقطے کا ابھی دشت نہیں کر پایا
خود کو شاعر کبھی تکمیلِ ہنر ہو تو کہوں
اہل دانش کو ملا دیس نکالا منصور
حاکمِ شہر کوئی شہر بدر ہو تو کہوں
زندگی ایسے گزر سکتی نہیں ہے منصور
میری باتوں کا کوئی اس پہ اثر ہو تو کہوں
پوچھتے کیا ہو ازل اور ابد کا منصور
ان زمانوں سے کبھی میرا گزر ہو تو کہوں
منصور آفاق

اے حرفِ کُن تری ٹھوکر پہ میں ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 290
مسلسل چاک کے محور پہ میں ہوں
اے حرفِ کُن تری ٹھوکر پہ میں ہوں
تُو مجھ کو دیکھ یا صرفِ نظر کر
مثالِ گل ترے کالر پہ میں ہوں
سبھی کردار واپس جا چکے ہیں
اکیلا وقت کے تھیٹر پہ میں ہوں
صلائے عام ہے تنہائیوں کو
محبت کے لیے منظر پہ میں ہوں
پھر اس کے بعد لمبا راستہ ہے
ابھی تو شام تک دفتر پہ میں ہوں
اٹھو بیڈ سے چلو گاڑی نکالو
فقط دو سو کلو میٹر پہ میں ہوں
مجھے بھی رنگ کر لینا کسی دن
ابھی کچھ دن اسی نمبر پہ میں ہوں
بجا تو دی ہے بیل میں نے مگر اب
کہوں کیسے کہ تیرے در پہ میں ہوں
ازل سے تیز رو بچے کے پیچھے
کسی چابی بھری موٹر پہ میں ہوں
پڑا تمثیل سے باہر ہوں لیکن
کسی کردار کی ٹھوکر پہ میں ہوں
کہے مجھ سے شبِ شہر نگاراں
ابھی تک کس لیے بستر پہ میں ہوں
یہی ہر دور میں سوچا ہے میں نے
زمیں کے آخری پتھر پہ میں ہوں
ہلا منصور مت اپنی جگہ سے
پہاڑ ایسا خود اپنے سر پہ میں ہوں
منصور آفاق

فصیلیں توڑتا رہتا ہوں ، در بناتا ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 277
میں رابطوں کے مکاں معتبر بناتا ہوں
فصیلیں توڑتا رہتا ہوں ، در بناتا ہوں
اڑان دیکھ مرے آہنی پرندوں کی
مسیح میں بھی ہوں لوہے کے پر بناتا ہوں
فروغ دیدئہ ابلاغ کے وسیلے سے
یہ اپنے آپ کو کیا باخبر بناتا ہوں
خدا کی شکل بنانی پڑے گی کاغذ پر
میں اپنا باطنی چہرہ اگر بناتا ہوں
سمٹ گئے ہیں جہاں تو مرے ہتھیلی میں
سو اب میں ذات کے اندر سفر بناتا ہوں
یونہی یہ لفظ چمکتے نہیں اندھیرے میں
جلا جلا کے کتابیں شرر بناتا ہوں
نکل پڑے نہ زمانہ مرے تعاقب میں
سو نقش پا بھی بہت سوچ کر بناتا ہوں
بس ایک صرف سناتا ہوں آیتِ منسوخ
فروغ خیر سے تہذیبِ شر بناتا ہوں
مرے دماغ میں بس عنکبوت رہتے ہیں
میں وہم بنتا ہوں خوابوں میں ڈر بناتا ہوں
اکھیڑ دیتا ہوں نقطے حروف کے منصور
میں قوسیں کاٹ کے تازہ ہنر بناتا ہوں
منصور آفاق

ملا ہوا ہے زمیں سے بھی یہ مگر آفاق

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 209
قیام دار سہی آسمان پر آفاق
ملا ہوا ہے زمیں سے بھی یہ مگر آفاق
کسی نے آنا تھا لیکن بڑے مسائل تھے
بھرا ہوا تھا اجالوں سے رات بھر آفاق
کرن کی قوس افق در افق ملائے اسے
ہے آج اپنے ہی پہلو میں جلوہ گر آفاق
صراطِ سمت پہ رکھی ہوئی بصارت سے
تمام کیسے دکھائے مری نظر آفاق
بس اتنا ہے کہ بلندی پہ ہیں ذرا لیکن
ہمیشہ کھول کے رکھتا ہے اپنے در آفاق
نکالتا ہے مسلسل اسی کو دامن سے
ترے چراغ سے کرتا رہا سحر آفاق
یہ اور بات کہ سورج پہن کے رہتا ہے
مرے لیے میرا چھتنار سا شجر آفاق
ابھی بچھڑنے کی ساعت نہیں ڈیئر آفاق
ابھی تو پب میں پڑی ہے بہت بیئر آفاق
بس اس لیے کہ اسے دیکھنے کی عادت ہے
جلاتا روز ہے سورج کا لائیٹر آفاق
بدن نے آگ ابھی لمس کی نہیں پکڑی
ابھی کچھ اور کسی کا مساج کر آفاق
خدا سے کیوں نہ تعلق خراب میرا ہو
ہے ایک چھتری کی صورت اِدھر اُدھر آفاق
اُدھر پتہ ہی نہیں کچھ بہشت کا منصور
اِدھر زمیں کے نظاروں سے بے خبر آفاق
منصور آفاق

بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 116
موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا
بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا
اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ
گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا
بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں
ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا
شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ
دیکھا تو میں نے آنکھ کو پتھر بنا لیا
ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کیے چراغ
اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا
پیچھے جو چل دیا مرے سائے کی شکل میں
میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا
شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی
مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا
کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر
اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا
پھر عرصۂ دراز گزارا اسی کے بیچ
اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا
بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر
اپنا دماغ گنبدِ بے در بنا لیا
باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے
لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا
گم کربِ ذات میں کیا یوں کربِ کائنات
آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا
منصور جس کی خاک میں افلاک دفن ہیں
دل نے اسی دیار کو دلبر بنا لیا
منصور آفاق

گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 111
ہاتھ سے ہنگامِ محشر رکھ دیا
گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا
اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے
بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا
پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں
آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا
اور پھر تازہ ہوا کے واسطے
ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا
ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر
پاؤں میں اس کے مقدر رکھ دیا
دیکھ کر افسوس تارے کی چمک
اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا
ایک ہی آواز پہنی کان میں
ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا
نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر
خواب کو بستر سے باہر رکھ دیا
دیدئہ تر میں سمندر دیکھ کر
اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا
اور پھر جاہ و حشم رکھتے ہوئے
میں نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا
میری مٹی کا دیا تھا سو اسے
میں نے سورج کے برابر رکھ دیا
خانہء دل کو اٹھا کر وقت نے
بے سرو ساماں ، سڑک پر رکھ دیا
جو پہن کرآتی ہے زخموں کے پھول
نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا
کچھ کہا منصور اس نے اور پھر
میز پر لا کر دسمبر رکھ دیا
منصور آفاق

تُو خالی ہاتھ مجھے بھیج… اور در نہ دکھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 101
مرے نصیب پہ رو دے، کسی کا گھر نہ دکھا
تُو خالی ہاتھ مجھے بھیج… اور در نہ دکھا
تُو اپنی شام کے بارے کلام کر مجھ سے
کسی کے بام پہ ابھری ہوئی سحر نہ دکھا
ابھی تو وصل کی منزل خیال میں بھی نہیں
شبِ فراق! ابھی سے یہ چشمِ تر نہ دکھا
گزار آیا ہوں صحرا ہزار پت جھڑ کے
فریبِ وقت! مجھے شاخِ بے ثمر نہ دکھا
میں جانتا ہوں قیامت ہے بیچ میں منصور
مجھے یہ راہ میں پھیلے ہوئے خطر نہ دکھا
منصور آفاق

تیرے بن باسیوں کا یہ گھر تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 81
ہجر تھل ریت کا سمندر تھا
تیرے بن باسیوں کا یہ گھر تھا
آدھے حصے میں رنگ تھے موجود
آدھا خالی گلی کا منظر تھا
چھت بھی بیٹھی ہوئی تھی کمرے کی
اور دل کا گرا ہوا در تھا
اک سلگتی سڑک پہ بچے کے
پاؤں میں ایک ہی سلیپر تھا
مملکت کی خراب حالت تھی
میں اکیلا وہاں قلندر تھا
وہ تھی یونان کی کوئی دیوی
اور قسمت کا میں سکندر تھا
ایک بس وہ خدا نہ تھا منصور
ورنہ ہر چیز پہ وہ قادر تھا
منصور آفاق

ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 61
اِس جا نمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا
ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا
دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف
اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا
آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی
اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا
اک زخم نوچتا ہوا بگلا کنارِ آب
تمثیل میں تھا میرا مقدر بنا ہوا
ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو
دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا
گربہ صفت گلی میں کسی گھونسلے کے بیچ
میں رہ رہا ہوں کوئی کبوتر بنا ہوا
ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول
لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا
پردوں پہ جھولتے ہوئے سُر ہیں گٹار کے
کمرے میں ہے میڈونا کا بستر بنا ہوا
یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف
اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا
ٹینس کا کھیل اور وہ بھیگی ہوئی شعاع
تھا انگ انگ کورٹ کا محشر بنا ہوا
منصور آفاق

ایک جیسا کر دے مولا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 40
روشنی سے بھر دے مولا
ایک جیسا کر دے مولا
بے سہاروں ، بے کسوں کو
زندگی بہتر دے مولا
اچھی روٹی ،اچھے کپڑے
سب کو اچھے گھر دے مولا
ہرطرف دوزخ ہیں شر کے
خیر کے منظر دے مولا
بچے جتنے بھی ہیں ان کو
علم کا زیور دے مولا
ارتکازِ زر کے آگے
ہمتِ بوزر دے مولا
اِس معاشرتی گھٹن کو
نغمہِ صرصر دے مولا
نام پر اپنے نبیؐ کے
کٹنے والا سر دے مولا
شکل اچھی دی ہے لیکن
خوبرو اندر دے مولا
بس مدنیے کی گلی میں
نیکیوں کا در دے مولا
میرے پاکستان کو بھی
کوئی چارہ گر دے مولا
جان لوں منصور کو میں
چشمِ دیدہ ور دے مولا
منصور آفاق

گھر میں ہوں گھر سے نکل کر بھی نظر کی صورت

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 13
ایک ہے میرے حضر اور سفر کی صورت
گھر میں ہوں گھر سے نکل کر بھی نظر کی صورت
چشمِ عشاق سے پنہاں ہو نظر کی صورت
وصل سے جان چراتے ہو کمر کی صورت
ہوں وہ بلبل کہ جو صیاد نے کاٹے مرے پر
گر گئے پھول ہر اک شاخ سے پر کی صورت
تیرے چہرے کی ملاحت جو فلک نے دیکھی
پھٹ گیا مہر سے دل شیرِ سحر کی صورت
جھانک کر روزنِ دیوار سے وہ تو بھاگے
رہ گیا کھول کے آغوش میں در کی صورت
تیغ گردن پہ کہ ہے سنگ پر آہیں دمِ ذبح
خون کے قطرے نکلتے ہیں شرر کی صورت
کون کہتا ہے ملے خاک میں آنسو میرے
چھپ رہی گرد یتیمی میں گہر کی صورت
نہیں آتا ہے نظر، المدد اے خضر اجل
جادۂ راہِ عدم موئے کمر کی صورت
پڑ گئیں کچھ جو مرے گرم لہو کی چھینٹیں
اڑ گئی جوہرِ شمشیر شرر کی صورت
قبر ہی وادیِ غربت میں بنے گی اک دن
اور کوئی نظر آتی نہیں گھر کی صورت
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی صورت
آفت آغازِ جوانی ہی میں آئی مجھ پر
بجھ گیا شام سے دل شمعِ سحر کی صورت
جلوہ گر بام پہ وہ مہرِ لقا ہے شاید
آج خورشید سے ملتی ہے قمر کی کی صورت
دہنِ یار کی توصیف کڑی منزل ہے
چست مضمون کی بندش ہو کمر کی صورت
نو بہارِ چمنِ غم ہے عجب روز افزوں
بڑھتی جاتی ہے گرہ دل کی ثمر کی صورت
ہوں بگولے کی طرح سے میں سراپا گردش
رات دن پاؤں بھی چکر میں ہیں سر کی صورت
امیر مینائی

اس خانماں خراب کو گھر کی تلاش ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 250
میری فغاں کو باب اثر کی تلاش ہے
اس خانماں خراب کو گھر کی تلاش ہے
شبنم! تیرے ان آئنہ خانوں کی خیر ہو
میرے چمن کو برق و شرر کی تلاش ہے
بیٹھا ہوا ہوں غیر کے در پر شکستہ پا
کس مہ سے میں کہوں ترے در کی تلاش ہے
جس کی ضیا ہو دسترس شام غم سے دور
دنیا کو ایک ایسی سحر کی تلاش ہے
باقیؔ ہے ٹوٹنے کو اب امید کا طلسم
اک آخری فریب نظر کی تلاش ہے
باقی صدیقی

فیصلہ اک نگاہ پر ہے ابھی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 177
فاصلہ دل کا مختصر ہے ابھی
فیصلہ اک نگاہ پر ہے ابھی
چاند شب کے گلے میں اٹکا ہے
دور ہنگامہ سحر ہے ابھی
سائے قدموں کو روک لیتے ہیں
اک دیوار ہر شجر ہے ابھی
گھر کے اندر نظر نہیں جاتی
راہ میں حسن بام و در ہے ابھی
راستے گونجتے ہیں دل کی طرح
ایک آواز ہم سفر ہے ابھی
راہ بھی گرد، منزلیں بھی گرد
ہر قدم اک نئی خبر ہے ابھی
کچھ تعلق صبا سے ہے باقیؔ
دل کے دامن میں اک شرر ہے ابھی
باقی صدیقی

مگر یوں زندگی ہو گی بسر بھی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 172
کرم ہے ہم پہ تیری اک نظر بھی
مگر یوں زندگی ہو گی بسر بھی
جو لے جاتی ہیں ہاتھوں پر سفینہ
انہی موجوں سے بنتے ہیں بھنور بھی
عنایت ایک تہمت بن نہ جائے
نظر کے ساتھ جھک جائے نہ سر بھی
ترے نغموں میں بھی کھویا ہوا ہوں
لگے ہیں کان دل کے شور پر بھی
چلا ہاتھوں سے دامان تمنا
ذرا اے سیل رنگ و بو ٹھہر بھی
لہو میں تر ہیں کا نٹوں کی زبانیں
کسی کو ہے گلستاں کی خبر بھی
لو اب تو دل کے سناٹے میں باقیؔ
ہوا شامل سکوت بام و در بھی
باقی صدیقی

اپنی ہوا میں اڑتا ہے بے پر کا آدمی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 164
جب سایہ آدمی کا پڑا سرکا آدمی
اپنی ہوا میں اڑتا ہے بے پر کا آدمی
گرتا ہے اپنے آپ پہ دیوار کی طرح
اندر سے جب چٹختا ہے پتھر کا آدمی
مٹی کی بات کرتا ہے کس اہتمام سے
سونے کی سل پہ بیٹھ کے مرمر کا آدمی
سائے کا ایک طور نہ چلمن کا ایک رنگ
دیوار کا رہا نہ کسی در کا آدمی
ہر صبح اٹھ کے زیست کی دیوار چاٹنا
باہر سے کتنا دور ہے اندر کا آدمی
باقیؔ یہ پھیلتے ہوئے رنگوں کے دائرے
باہر ہی باہر اڑتا ہے باہر کا آدمی
باقی صدیقی

رہزن کی طرح کرتے ہیں ہم لوگ سفر اب

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 73
ہر رہرو اخلاص پہ رہتی ہے نظر اب
رہزن کی طرح کرتے ہیں ہم لوگ سفر اب
پھولوں میں چھپا بیٹھا ہوں اک زخم کی صورت
کھا جاتی ہے دھوکا مری اپنی بھی نظر اب
اس طرح اٹھا دہ سے یقیں اہل جہاں کا
افواہ نظر آتی ہے سچی بھی خبر اب
جو پرسش غم کے لئے آ جائے غنیمت
کشکول کی مانند کھلا رہتا ہے در اب
نظروں میں ابھر آتا ہے ہر ڈوبتا تارا
اس طرح گزرتی ہے مرے دل سے سحر اب
دنیا کو ہے اب کانچ کے ٹکڑوں کی ضرورت
کس کے لئے دریا سے نکالو گے گہر اب
منزل سے بہت دور نکل آیا ہوں باقیؔ
بھٹکا ہوا رہرو ہی کوئی آئے ادھر اب
باقی صدیقی

تیرے جلوؤں کا اثر یاد آیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 65
رنگ دل، رنگ نظر یاد آیا
تیرے جلوؤں کا اثر یاد آیا
وہ نظر بن گئی پیغام حیات
حلقہ شام و سحر یاد آیا
یہ زمانہ، یہ دل دیوانہ
رشتہ سنگ و گہر یاد آیا
یہ نیا شہر یہ روشن راہیں
اپنا انداز سفر یاد آیا
راہ کا روپ بنی دھوپ اپنی
کوئی سایہ نہ شجر یاد آیا
کب نہ اس شہر میں پتھر برسے
کب نہ اس شہر میں سر یاد آیا
گھر میں تھا دشت نوردی کا خیال
دشت میں آئے تو گھر یاد آیا
گرد اڑتی ہے سر راہ خیال
دل ناداں کا سفر یاد آیا
ایک ہنستی ہوئی بدلی دیکھی
ایک جلتا ہوا گھر یاد آیا
اس طرح شام کے سائے پھیلے
رات کا پچھلا پہر یاد آیا
پھر چلے گھر سے تماشا بن کر
پھر ترا روزن در یاد آیا
باقی صدیقی

کوئی کرتا ہوا فر یاد آیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 62
دشت یاد آیا کہ گھر یاد آیا
کوئی کرتا ہوا فر یاد آیا
پھر بجھی شمع جلا دی ہم نے
جانے کیا وقت سحر یاد آیا
ربط باہم کی تمنا معلوم
حادثہ ایک مگر یاد آیا
در و دیوار سے مل کر روئے
کیا ہمیں وقت سفر یاد آیا
قدم اٹھتے نہیں منزل کی طرف
کیا سر راہگزر یاد آیا
ہنس کے پھر راہنما نے دیکھا
پھر ہمیں رخت سفر یاد آیا
کسی پتھر کی حقیقت ہی کیا
دل کا آئنہ مگر یاد آیا
آنچ دامان صبا سے آئی
اعتبار گل تر یاد آیا
دل جلا دھوپ میں ایسا اب کے
پاؤں یاد آے نہ سر یاد آیا
گر پڑے ہاتھ سے کاغذ باقیؔ
اپنی محنت کا ثمر یاد آیا
زندگی گزرے گی کیونکر باقیؔ
عمر بھر کوئی اگر یاد آیا
باقی صدیقی

گئے جس در پہ تیرے در کے سوا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 38
کچھ بھی پایا نہ درد سر کے سوا
گئے جس در پہ تیرے در کے سوا
یوں پریشاں ہیں جیسے حاصل شب
آج کچھ اور ہے سحر کے سوا
کس کے در پر صدا کریں جا کر
وا نہیں کوئی اپنے در کے سوا
کل تو سب کچھ تھی آپ کی آمد
آج کچھ بھی نہیں خبر کے سوا
وائے ہنگامہ جیسے کچھ بھی نہیں
کارواں شور رہگزر کے سوا
یہ نشیمن یہ گلستاں باقیؔ
اور سب کچھ ہے بال و پر کے سوا
باقی صدیقی