ٹیگ کے محفوظات: درپیش

عجب مرحلہ ہم کو درپیش ہے

دیوان سوم غزل 1279
غم مرگ سے دل جگر ریش ہے
عجب مرحلہ ہم کو درپیش ہے
بلا ہے اسے شوق تیر و کماں
یہیں سے ہے پیدا ستم کیش ہے
دلا اس کے ظاہر پہ مت جائیو
وہ خوش رو تو ہے پر بد اندیش ہے
بہت خوب ہے لعل نوشین یار
ولیکن خط پشت لب نیش ہے
ہمیں کیا جو ہے میر بیہوش سا
خدا جانے یہ کیا ہی درویش ہے
میر تقی میر

اک مصیبت ہے میرے تیں درپیش

دیوان اول غزل 240
دل تو افگار ہے جگر ہے ریش
اک مصیبت ہے میرے تیں درپیش
پان تو لیتا جا فقیروں کے
برگ سبز است تحفۂ درویش
ایک دم مہر برسوں تک کینہ
یوں ہی گذری ہے اپنی اس کی ہمیش
فکر کر زاد آخرت کا بھی
میر اگر تو ہے عاقبت اندیش
میر تقی میر

یعنی کہ میں اکیلا ہوں درویش آدمی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 457
اس عہدِ بے شرف میں شرف کیش آدمی
یعنی کہ میں اکیلا ہوں درویش آدمی
مانا ہیں آسماں سے مراسم رکھے ہوئے
میرا قبیلہ خاک ، مرا خویش آدمی
جو کاٹتا رہا ہے مجھے سانپ کی طرح
لگتا تھا آنکھ سے تو کم و بیش آدمی
اس کو خبر نہیں ہے حیات و ممات کی
جو کائنات کے نہیں درپیش آدمی
کچھ بول اس شعور کی اندھی گپھا میں
منصور کوئی دیتا ہے اپدیش آدمی
منصور آفاق