ٹیگ کے محفوظات: دردنوش

کہتے ہیں دیوار بھی رکھے ہے گوش

دیوان سوم غزل 1144
اس کے در پر شب نہ کر اے دل خروش
کہتے ہیں دیوار بھی رکھے ہے گوش
پائوں پڑتا ہے کہیں آنکھیں کہیں
اس کی مستی دیکھ کر جاتا ہے ہوش
کتنے یہ فتنے ہیں موجب شور کے
قد و خد و گیسو و لعل خموش
مر گیا اس ماہ بن میں کیا عجب
چاندنی سے ہو جو میرا قبرپوش
صافی مے چادر اپنی میں نے کی
اور کیا کرتے ہیں مفلس دردنوش
دوستوں کا درد دل ٹک گوش کر
گر نصیب دشمناں ہے دردگوش
جب نہ تب ملتا ہے بازاروں میں میر
ایک لوطی ہے وہ ظالم سرفروش
میر تقی میر

یاں کون تھوکے ہے صدف ہرزہ کوش پر

دیوان سوم غزل 1138
دعویٰ ہے یوں ہی اس کا ترے حسن گوش پر
یاں کون تھوکے ہے صدف ہرزہ کوش پر
شاید کسو میں اس میں بہت ہو گیا ہے بعد
تم بھی تو گوش رکھو جرس کے خروش پر
جیب و کنار سے تو بڑھا پانی دیکھیے
چشمہ ہماری چشم کا رہتا ہے جوش پر
اک شور ہے جو عالم کون و فساد میں
ہنگامہ ہے اسی کے یہ لعل خموش پر
ہے بار دوش جس کے لیے زندگی سو وہ
رکھ ہاتھ راہ ٹک نہ چلا میرے دوش پر
جو ہے سو مست بادئہ وہم و خیال ہے
کس کو ہے یاں نگاہ کسو دردنوش پر
مرغ چمن نے کیا حق صحبت ادا کیا
لالا کے گل بکھیرے مرے قبرپوش پر
جب تک بہار رہتی ہے رہتا ہے مست تو
عاشق ہیں میر ہم تو تری عقل و ہوش پر
میر تقی میر