منصور آفاق ۔ غزل نمبر 377
آسمانوں کے دفینے کی طرف آنکھیں ہیں
خاک طیبہ کے خزینے کی طرف آنکھیں ہیں
اس میں اک نام دھڑکتا ہے بڑے زور کے ساتھ
اپنی تو اپنے ہی سینے کی طرف آنکھیں ہیں
لوگ مشکل میں عبادت کریں واشنگٹن کی
شکر ہے اپنی ، مدینے کی طرف آنکھیں ہیں
روضے کی جالیاں چھونے کا شرف جس کو ملا
اُس انگوٹھی کے نگینے کی طرف آنکھیں ہیں
آرہا ہے جو سرِ عرش سے میری جانب
اُس اترے ہوئے زینے کی طرف آنکھیں ہیں
جس پہ بطحا کا سفر کرتے تھے عشاقِ رسول
اُس کرم بار سفینے کی طرف آنکھیں ہیں
جس میں آیا تھا اجالوں کا پیمبر منصور
اُس بہاروں کے مہینے کی طرف آنکھیں ہیں
منصور آفاق