ٹیگ کے محفوظات: خزانوں

لامسہ، شامہ، ذائقہ، سامعہ، باصرہ سب مرے راز دانوں میں ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 176
تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جانِ من، اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں
لامسہ، شامہ، ذائقہ، سامعہ، باصرہ سب مرے راز دانوں میں ہیں
اور کچھ دامنِ دل کشادہ کرو، دوستو، شکرِ نعمت زیادہ کرو
پیڑ، دریا، ہوا، روشنی، عورتیں، خوشبوئیں سب خدا کے خزانوں میں ہیں
ناقۂ حسن کی ہم رکابی کہاں، خیمۂ ناز میں باریابی کہاں
ہم تو اے بانوئے کشورِ دلبری، پاسداروں میں ہیں ساربانوں میں ہیں
میرے اندر بھی ہے ایک شہرِ دگر، میرے مہتاب اک رات ادھر سے گزر
کیسے کیسے چراغ ان دریچوں میں ہیں، کیسے کیسے قمر ان مکانوں میں ہیں
اک ستارہ ادا نے یہ کیا کردیا، میری مٹی سے مجھ کو جدا کر دیا
ان دنوں پاؤں میرے زمیں پر نہیں اب میری منزلیں آسمانوں میں ہیں
عرفان صدیقی

سب پہ اتریں کہکشائیں سب زمانوں میں دیے ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 291
ایک جیسی روشنی ہو، لامکانوں میں دیے ہوں
سب پہ اتریں کہکشائیں سب زمانوں میں دیے ہوں
قمقمے ہوں پانیوں میں جگمگائیں شاہراہیں
شہر ہوں تہذیب گاہیں ، گلستانوں میں دیے ہوں
فکرِ مال وزر بدل دے ،آگہی کے در بدل دے
یہ نظامِ شربدل دے،درس خانوں میں دیے ہوں
اب نہ غربت ہو کہیں بس،دے مساواتِ حسیں بس
روٹی کپڑا ہی نہیں بس،سب مکانوں میں دیے ہوں
ایک ازلوں کی کہاوت ،بھوک اور رج میں عداوت
ظلم طبقاتی تفاوت ،سب خزانوں میں دیے ہوں
سندھ دریا کی ہوں نظمیں اور روہی کی ہوں بزمیں
جگنوئوں کے حاشیے ہوں ، آسمانوں میں دیے ہوں
دے بسروچشم سب کو موت لیکن دیکھ اتنا
لوگ جیون میں جیے ہوں ،آشیانوں میں دیے ہوں
لفظ سچا ہی نہ ہو بس ،نام اچھا ہی نہ ہو بس
کام اچھے بھی کیے ہوں سب گمانوں میں دیے ہوں
رات تاروں کیلئے ہو چاند ساروں کے لیے ہو
نور کی منصور شب ہو داستانوں میں دیے ہوں
منصور آفاق