ٹیگ کے محفوظات: خراش

تلوار کا سا گھاؤ ہے جبہے کا ہر خراش

دیوان پنجم غزل 1638
غصے میں ناخنوں نے مرے کی ہے کیا تلاش
تلوار کا سا گھاؤ ہے جبہے کا ہر خراش
صحبت میں اس کی کیونکے رہے مرد آدمی
وہ شوخ و شنگ و بے تہ و اوباش و بدمعاش
بے رحم تجھ کو ایک نظر کرنی تھی ادھر
کشتے کے تیرے ٹکڑے ہوئے لے گئے بھی لاش
آباد اجڑا لکھنؤ چغدوں سے اب ہوا
مشکل ہے اس خرابے میں آدم کی بودو باش
عمرعزیز یاس ہی میں جاتی ہے چلی
امیدوار اس کے نہ ہم ہوتے میر کاش
میر تقی میر

مانند گل شگفتہ جبیں یاں معاش کر

دیوان چہارم غزل 1385
مت اس چمن میں غنچہ روش بود و باش کر
مانند گل شگفتہ جبیں یاں معاش کر
دل رکھ قوی فلک کی زبردستی پر نہ جا
گر کشتی لگ گئی ہے تو تو بھی تلاش کر
ہے کیا تو جیسے غنچہ بندھی مٹھی جا چلا
مت گل کے رنگ منھ کو کھلا راز فاش کر
یوں ہی ہے سینہ کوبی اگر چاہے دل کی داد
پیشانی کو سلیقے سے دکھلا خراش کر
پھرتا ہے کیا تو میر گلستاں میں غم زدہ
کچھ دل خراش لکھ بھی قلم اک تراش کر
میر تقی میر