ٹیگ کے محفوظات: خرابوں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 61
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں
احمد فراز

کوئی تعبیر رکھ دو میرے بچوں کی کتابوں میں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 156
مجھے اُلجھا دیا دانش کدوں نے صرف خوابوں میں
کوئی تعبیر رکھ دو میرے بچوں کی کتابوں میں
طلسم ایسا تو ہو جو خوُبصورت ہو حقیقت سے
ہنر یہ بھی نہیں ہے آج کے افراسیابوں میں
تعلق اِک تعارف تک سمٹ کر رہ گیا آخر
نہ وہ تیزی سوالوں میں نہ وہ تلخی جوابوں میں
مکاں کیسے بھی ہوں، خوابوں کی خاطر کون ڈھاتا ہے
کم اَز کم اِس قدر ہمّت تو تھی خانہ خرابوں میں
ذرا سوچو تو اِس دُنیا میں شاید کچھ نہیں بدلا
وہی کانٹے ببولوں میں، وہی خوُشبو گلابوں میں
عرفان صدیقی

مرا منظرنامہ خوابوں کا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 34
چڑیوں پھولوں مہتابوں کا
مرا منظرنامہ خوابوں کا
آنکھوں میں لوح خزانوں کی
شانوں پر بوجھ خرابوں کا
یا نصرت آج کمانوں کی
یا دائم رنگ گلابوں کا
اِک اِسم کی طاہر چادر میں
طے موسم دُھوپ عذابوں کا
کبھی بادل چھت کی چھاؤں میں آ
کبھی ناتا توڑ طنابوں کا
یہی بستی میرے پرکھوں کی
یہی رَستہ ہے سیلابوں کا
مرے پتھر ہونٹ حکایت ہیں
میں حرف تری محرابوں کا
عرفان صدیقی

ٹوٹا نہیں ابھی ترے خوابوں کا سلسلہ

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 151
آنکھوں میں ہے سوالوں جوابوں کا سلسلہ
ٹوٹا نہیں ابھی ترے خوابوں کا سلسلہ
دنیا کے رنگ رنگ میں حسرت کی کروٹیں
موجوں کے ساتھ ساتھ حبابوں کا سلسلہ
پیچھے نہ موج ریگ رواں کے چلے چلیں
ہو گا کہیں تو ختم سرابوں کا سلسلہ
موج بہار کے بھی قدم لڑ کھڑا گئے
جاتا ہے کتنی دور خرابوں کا سلسلہ
لفظوں تک آ گیا ہے جنوں کا معاملہ
دل کے اِدھر اُدھر ہے کتابوں کا سلسلہ
گھٹتا ہی جائے گا نگہ شوق کا مقام
بڑھتا ہی جائے گا یہ حجابوں کا سلسلہ
باقیؔ تری نگاہ کی دیوار بن گیا
چہروں کا مرحلہ کہ نقابوں کا سلسلہ
باقی صدیقی