ٹیگ کے محفوظات: خدا
کوئی نظر کر عبرت آگیں اس کے نازو ادا کی طرف
اس کو خدا ہی ہووے تو ہو کچھ خدا سے ربط
اس آرزو نے مارا یہ بھی خدا کی خواہش
متروک رسم جور و ظلم و جفا ہے شاید
کچھ کہتے ہیں سر الٰہی کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق
قدرت سے اس کی لب پر نام آوے ہے خدا کا
سرمایۂ توکل یاں نام ہے خدا کا
خبر ہوتے ہی ہوتے دل جگر دونوں جلا دیوے
نکہت گل سے آشنا نہ ہوئے
لگ اٹھتی آگ سب جوِّ سما میں
الٰہی غنچہ ہے پژمردہ یا دل
حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق
گاہے بکا کرے ہے گاہے دعا کرے ہے
جگر سب کھا گیا اب کیا رہا ہے
اک آگ سی رہے ہے کیا جانیے کہ کیا ہے
بے دید و بے مروت و ناآشنا ہیں یے
گم کیا خود کے تیں خدا سمجھے
جو چاہنے والے کا ہر طور برا چاہے
مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے
الفت سے محبت سے مل بیٹھنا کیا جانے
بے رحمی اتنی عیب نہیں بے وفا نہ ہو
سو لطف کیوں نہ جمع ہوں اس میں مزہ نہیں
پلک سے پلک آشنا ہی نہیں
دیوانے کو جو خط لکھوں بتلائو کیا لکھوں
گہر پہنچا بہم آب بقا میں
یہی سبب ہے جو کھائی ہے میں دوا کی قسم
نکلے پردے سے کیا خدا معلوم
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع
خوبی رہا کرے ہے مری جان کیا ہمیش
کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش
رہتی ہے آرسی ہی دھری خودنما کے پاس
آوے گی بہت ہم بھی فقیروں کی صدا یاد
ہم برے ہی سہی بھلا صاحب
دیکھا نہ بدگمان ہمارا بھلا پھرا
بھروسا کیا ہے عمربے وفا کا
شاید ہمیں دکھلاویں گے دیدار خدا کا
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے
کیا جانیے کیا ہو گا آخر کو خدا جانے
سماجت اتنی بھی سب سے کوئی خدا بھی ہے
الٰہی اس بلاے ناگہاں پر بھی بلا آوے
کیا ناز کر رہے ہو اب ہم میں کیا رہا ہے
کہ ہمراہ صبا ٹک سیر کرتے پھر ہوا ہوتے
یہی بات ہم چاہتے تھے خدا سے
وہی دور ہو تو وہی پھر نہ آ تو
اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو
تم تو کرو ہو صاحبی بندے میں کچھ رہا نہیں
لیک لگ چلنے میں بلا ہیں ہم
شیخ کیا جانے تو کہ کیا ہے عشق
اڑتی ہے خاک میری باد صبا ہے شاہد
شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج
میں نے یہ غنچۂ تصویر صبا کو سونپا
مجنوں بھی اس کی موج میں مدت بہا پھرا
اب کے شرط وفا بجا لایا
خیال کی باغبانیاں کر اُگا یہ نظمیں
وہ زندگی کو بطورِ سزا قبول کرے
آدم زاد خدا بن جائے
صنم دکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں ہوتا
اک تو کہ ہے طلسمِ شب و روز کا شکار
خدا
خبر ہے تجھ کو کچھ، رلدو! مرے ننھے! مرے بالک!
ترا بھگوان پرمیشر ہے اس سنسار کا پالک!
کہاں رہتا ہے پرمیشر؟ ادھر آکاش کے پیچھے
کہیں دور، اس طرف تاروں کی بکھری تاش کے پیچھے
نہیں دیکھا؟ سویرے جوں ہی مندر میں گجر باجا
پہن کر نور کی پوشاک وہ من موہنا راجا
لیے سونے کا چھابا جب ادھر پورب سے آتا ہے
تو ان تاروں کی پگڈنڈی پہ جھاڑو دے کے جاتا ہے
نہیں سمجھے کہ اتنا دور کیوں اس کا بسیرا ہے؟
وہ اونچی ذات والا ہے اور اونچا اس کا ڈیرا ہے
یہ دنیا والے، یہ امرت کے رس کی چھاگلوں والے
یہ میٹھے بھوجنوں والے، یہ اجلے آنچلوں والے
یہ اس کو اپنی لاشیں اپنے مردے سونپ دیتے ہیں
عفونت سے بھرے دل اور گردے سونپ دیتے ہیں
جنہیں دوزخ کے زہروں میں بھگو کر بھونتا ہے وہ
جنہیں شعلوں کی سیخوں میں پرو کر بھونتا ہے وہ
یہ اس بھگوان کے دامن کو چھو لینے سے ڈرتے ہیں
یہ اس کو اپنے محلوں میں جگہ دینے سے ڈرتے ہیں
کسی نے بھول کر اس کا بھجن گایا، یہ جل اٹھے
کہیں پڑ بھی گیا اس کا حسیں سایا، یہ جل اٹھے
غلط کہتا ہے تو نادان، تو نے اس کو دیکھا ہے
مرے بھولے! ہماری اور اس کی ایک لیکھا ہے