ٹیگ کے محفوظات: خانوں

بدل رہا ہے جنوں زاویے اُڑانوں کے

کہاں رُکیں گے مُسافر نئے زمانوں کے
بدل رہا ہے جنوں زاویے اُڑانوں کے
یہ دل کا زخم ہے‘ اک روز بھر ہی جائے گا
شگاف پُر نہیں ہوتے فقط چٹانوں کے
چھلک چھلک کے بڑھا میری سمت نیند کا جام
پگھل پگھل کے گرے قفل قید خانوں کے
ہَوا کے دشت میں تنہائی کا گزر ہی نہیں
مرے رفیق ہیں مُطرب‘ گئے زمانوں کے
کبھی ہمارے نقوشِ قدم کو ترسیں گے
وہی جو آج ستارے ہیں آسمانوں کے
شکیب جلالی

سب پہ اتریں کہکشائیں سب زمانوں میں دیے ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 291
ایک جیسی روشنی ہو، لامکانوں میں دیے ہوں
سب پہ اتریں کہکشائیں سب زمانوں میں دیے ہوں
قمقمے ہوں پانیوں میں جگمگائیں شاہراہیں
شہر ہوں تہذیب گاہیں ، گلستانوں میں دیے ہوں
فکرِ مال وزر بدل دے ،آگہی کے در بدل دے
یہ نظامِ شربدل دے،درس خانوں میں دیے ہوں
اب نہ غربت ہو کہیں بس،دے مساواتِ حسیں بس
روٹی کپڑا ہی نہیں بس،سب مکانوں میں دیے ہوں
ایک ازلوں کی کہاوت ،بھوک اور رج میں عداوت
ظلم طبقاتی تفاوت ،سب خزانوں میں دیے ہوں
سندھ دریا کی ہوں نظمیں اور روہی کی ہوں بزمیں
جگنوئوں کے حاشیے ہوں ، آسمانوں میں دیے ہوں
دے بسروچشم سب کو موت لیکن دیکھ اتنا
لوگ جیون میں جیے ہوں ،آشیانوں میں دیے ہوں
لفظ سچا ہی نہ ہو بس ،نام اچھا ہی نہ ہو بس
کام اچھے بھی کیے ہوں سب گمانوں میں دیے ہوں
رات تاروں کیلئے ہو چاند ساروں کے لیے ہو
نور کی منصور شب ہو داستانوں میں دیے ہوں
منصور آفاق