منصور آفاق ۔ غزل نمبر 203
ہے وجہ کج کلاہی مرا ایک ایک لفظ
دائم مری گواہی مرا ایک ایک لفظ
اے حکمرانِ ملک خدا داد ، ظلم روک
تیرے لئے تباہی مرا ایک ایک لفظ
ہر چوک پر کھڑا ہے بڑے اعتماد سے
سچائی کا سپاہی مرا ایک ایک لفظ
رقصاں نئی شعاعیں مری چشمِ خواب میں
صبحوں کی خوش نگاہی مرا ایک ایک لفظ
لکھتا رہا ترے ہی قیصدے اے آفتاب
کرتا رہا ضیاہی مرا ایک ایک لفظ
تجھ سے ملا تو پھول بھی خوشبو بھی بن گیا
بادِ صبا تو تھا ہی مرا ایک ایک لفظ
تہذیبِ حسن باطنی مری غزل ہوئی
حیرت بھری صراحی مرا ایک ایک لفظ
منصور کی بھی بڑ یہی سرمد کا دھڑ یہی
تسلیم !خانقاہی مرا ایک ایک لفظ
منصور آفاق