ٹیگ کے محفوظات: حویلی

کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں ؟

خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جُھک کے کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں ؟
یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے
گزر ہُوا ہے مرا کس اُجاڑ بستی میں !
جُھکی چٹان‘ پھسلتی گرفت‘ جُھولتا جسم
میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں
زمانے بھر سے نرالی ہے آپ کی منطِق
ندی کو پار کیا کس نے الٹی کشتی میں
جلائے کیوں ! اگر اتنے ہی قیمتی تھے خطوط
کریدتے ہو عبث راکھ اب انگیٹھی میں
عجب نہیں جو اُگیں یاں درخت پانی کے
کہ اشک بوئے ہیں شب بھر کسی نے دھرتی میں
مری گرفت میں آ کر نِکل گئی تِتلی
پروں کے رنگ مگر رہ گئے ہیں مُٹھّی میں
چلو گے ساتھ مرے‘ آگہی کی سرحد تک؟
یہ رہ گزار اترتی ہے گہرے پانی میں
میں اپنی بے خبری سے‘ شکیبؔ‘ واقف ہوں
بتاؤ پیچ ہیں کتنے تمھاری پگڑی میں
شکیب جلالی

وصل کی پہلی چنبیلی دیکھتی ہو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 237
خوابِ گل کی جو پہیلی دیکھتی ہو
وصل کی پہلی چنبیلی دیکھتی ہو
پتھروں کو کاٹتا رہتا ہوں دن بھر
کیا مری چھو کر ہتھیلی دیکھتی ہو
بات کر سکتے ہیں ہم دونوں یہاں پر
ہے سڑک کتنی اکیلی دیکھتی ہو
غم کی صدیوں کا کھنڈر ہوں تیرے بعد
جسم کی خالی حویلی دیکھتی ہو
یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے چشم و لب میں
بولتی ہو رت، چنبیلی دیکھتی ہو
بات خوشبو کی اچانک موسموں نے
چھین اس کے ہونٹ سے لی، دیکھتی ہو
مجھ میں دیکھو بیٹھ کر اس کو کوئی دن
خود میں کیا دلہن نویلی دیکھتی ہو
منصور آفاق