ٹیگ کے محفوظات: حسین

حسین

وہ شام صبحِ دوعالم تھی جب بہ سرحدِ شام

رکا تھا آ کے ترا قافلہ، ترے خیام!

متاعِ کون و مکاں، تجھ شہید کا سجدہ

زمینِ کرب و بلا کے نمازیوں کے امام

یہ نکتہ تو نے بتایا جہان والوں کو!

کہ ہے فرات کے ساحل سے سلسبیل اک گام

سوارِ مرکبِ دوشِ رسول — پورِ بتول

چراغِ محفلِ ایماں ترا مقدس نام!

مجید امجد

میں آؤں گا پلٹ کر، میرایقین رکھنا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 48
سورج نکل پڑا ہے گھوڑے پہ زین رکھنا
میں آؤں گا پلٹ کر، میرایقین رکھنا
شیوہ یہی رہا ہے اپنے حسب نسب میں
اچھی شراب پینا ، ساتھی حسین رکھنا
بے شک روایتوں سے کرنا گریز لیکن
نازک خیال رکھنا،لہجہ متین رکھنا
کس کو بتایا جائے اِس اجنبی نگر میں
خالی مکان میں ہے کوئی مکین رکھنا
میں جارہا ہوں آگے ،دشمن پہاڑیوں پر
میرے لئے وطن میں دوگز زمین رکھنا
فنِ سپہ گری ہے دونوں طرف برابر
تلوار ہاتھ میں تم بس بہترین رکھنا
منصور ڈوب جانا دریا میں فلسفوں کے
لیکن بچا کے اپنا دینِ مبین رکھنا
منصور آفاق