ٹیگ کے محفوظات: حرمت

کوئی گھڑی تو پاس رہو یاں پہروں فرصت کیا ہے آج

دیوان چہارم غزل 1368
حال برا ہے تم کو ہم سے اتنی غفلت کیا ہے آج
کوئی گھڑی تو پاس رہو یاں پہروں فرصت کیا ہے آج
سامنے ہے وہ آئینہ پر آنکھ نہیں کھل سکتی ہے
دل تنگی سے رکے ہے دم کیا کہیے صورت کیا ہے آج
فرق و تیغ جٹے رہتے ہیں جب سے دل کی لاگ لگی
اس ظالم بے رحم کی میری ایسی صحبت کیا ہے آج
شیشہ صراحی ساغر و مینا سب کل تک بھی حاضر تھے
کوے بادہ فروشاں میں یہ میری حرمت کیا ہے آج
میر کھڑے اک ساعت ہی میں غش تم کرنے لگتے ہو
تاب نہیں کیا ضعف ہے دل میں جی بے طاقت کیا ہے آج
میر تقی میر

اور نہ تھی توفیق تمھیں تو بوسے کی ہمت رکھتے تھے

دیوان دوم غزل 1005
ایک سمیں تم ہم فقرا سے اکثر صحبت رکھتے تھے
اور نہ تھی توفیق تمھیں تو بوسے کی ہمت رکھتے تھے
آگے خط سے دماغ تمھارا عرش پہ تھا ہو وے ہی تم
پائوں زمیں پر رکھتے تھے تو خدا پر منت رکھتے تھے
اب تو ہم ہو چکتے ہیں ٹک تیرے ابرو خم ہوتے
کیا کیا رنج اٹھاتے تھے جب جی میں طاقت رکھتے تھے
چاہ کے سارے دیوانے پر آپ سے اکثر بیگانے
عاشق اس کے سیر کیے ہم سب سے جدی مت رکھتے تھے
ہم تو سزاے تیغ ہی تھے پر ظلم بے حد کیا معنی
اور بھی تجھ سے آگے ظالم اچھی صورت رکھتے تھے
آج غزال اک رہبر ہوکر لایا تربت مجنوں پر
قصد زیارت رکھتے تھے ہم جب سے وحشت رکھتے تھے
کس دن ہم نے سر نہ چڑھاکر ساغر مے کو نوش کیا
دور میں اپنے دختر رز کی ہم اک حرمت رکھتے تھے
کوہکن و مجنون و وامق کس کس کے لیں نام غرض
جی ہی سے جاتے آگے سنے وے لوگ جو الفت رکھتے تھے
چشم جہاں تک جاتی تھی گل دیکھتے تھے ہم سرخ و زرد
پھول چمن کے کس کے منھ سے ایسی خجلت رکھتے تھے
کام کرے کیا سعی و کوشش مطلب یاں ناپیدا تھا
دست و پا بہتیرے مارے جب تک قدرت رکھتے تھے
چتون کے کب ڈھب تھے ایسے چشمک کے تھے کب یہ ڈول
ہائے رے وے دن جن روزوں تم کچھ بھی مروت رکھتے تھے
لعل سے جب دل تھے یہ ہمارے مرجاں سے تھے اشک چشم
کیا کیا کچھ پاس اپنے ہم بھی عشق کی دولت رکھتے تھے
کل کہتے ہیں اس بستی میں میر جی مشتاقانہ موئے
تجھ سے کیا ہی جان کے دشمن وے بھی محبت رکھتے تھے
میر تقی میر