ٹیگ کے محفوظات: جین

سفید آگ سیہ جین سے نکل آئی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 448
کلی لبادۂ تزئین سے نکل آئی
سفید آگ سیہ جین سے نکل آئی
دکھائی فلم کسی نے وصال کی پہلے
پھر اس کے بعد وہی سین سے نکل آئی
مرے خدا کی بھی قربان گاہ مٹی تھی
بہار پھول کی تدفین سے نکل آئی
اسے خرید لیا مولوی کفایت نے
جو نیکی سیٹھ کرم دین سے نکل آئی
چراغ لے کے میں بیٹھا ہی تھا کہ صبحِ ازل
خرامِ آبِ اباسین سے نکل آئی
مریدِ خاص ہوئی تخلیے کی آخرکار
خرد نصیحت و تلقین سے نکل آئی
حروف وردِ انا الحق پہ کرتے تھے مجبور
سو میری آنکھ طواسین سے نکل آئی
مجھے جگایا کسی نے یوں حسنِ قرات سے
کہ صبح سورۃ یاسین سے نکل آئی
گریزاں یار بھی تکرار سے ہوا کچھ کچھ
طبعیت اپنی بھی توہین سے نکل آئی
گزر ہوا ہے جہاں سے بھی فوج کا منصور
زمین گھاس کے قالین سے نکل آئی
منصور آفاق

کون عریاں ہے نگاہوں میں سیہ جین پہن کر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 174
فلم چلتی ہے مسلسل وہی اک سین پہن کر
کون عریاں ہے نگاہوں میں سیہ جین پہن کر
کوئی کمرہ مرے پاؤں پہ اترتا ہی نہیں ہے
سیڑھیاں چلتی چلی جاتی ہیں قالین پہن کر
ہوتے رہتے ہیں جہازوں کے بڑے حادثے لیکن
کرتا رہتا ہوں سفر سورتِ یٰسین پہن کر
نرمگی اس کی ابھر آئی تھی ملبوس سے باہر
کتنی نازک سی سکرٹ آئی تھی نرمین پہن کر
تم مرے ہونٹوں کی کیا پیاس بجھا سکتی ہو وینس
میرا پیاسا ہے بدن، آبِ ابا سین پہن کر
ہیں خدائی کا مسائل کہ سرِ راہ پڑے ہیں
اک تماشے کا لبادہ سا فراعین پہن کر
منصور آفاق

فرمانِ چشمِ یار پہ واوین مت لگا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 79
مرکوز رکھ نگاہ کو، پھر نین مت لگا
فرمانِ چشمِ یار پہ واوین مت لگا
زردار! یہ جو تُو نے کیے ہیں ہزار حج
اس پر امیدِ رحمتِ دارین مت لگا
جس سے تُو دیکھتا ہے ابو جہل کے قدم
اُس آنکھ سے رسول کے نعلین مت لگا
خطرہ ہے انعدام کا میرے وجود کو
باہوں سے اپنی محفلِ قوسین مت لگا
دونوں طرف ہی دشمنِ جاں ہیں خیال رکھ
اتنے قریب حدِ فریقین مت لگا
کوئی تماشا اے مرے جدت طراز ذہن
تُو عرش اور فرش کے مابین مت لگا
جائز ہر ایک آنکھ پہ جلوے بہار کے
اپنی کتابِ حسن پہ تُو بین مت لگا
دیوارِ قوس رکھ نہ شعاعوں کے سامنے
لفظِ طلو کے بعد کبھی عین مت لگا
دشمن کے ہارنے پہ بھی ناراض مجھ سے ہے
مجھ کو تو اپنا دل بھی کوئی’ جین مت‘ لگا
ادراک سلسلہ ہے، اسے مختصر نہ کر
اپنے سکوتِ فہم کو بے چین ’مت‘ لگا
جس نے تمام زندگی بجلی چرائی ہے
اس کو تو واپڈا کا چیرمین مت لگا
لگتا ہے یہ مقدمہ یک طرفہ عشق کا
منصور شرطِ شرکتِ ’طرفین‘ مت لگا
منصور آفاق