ٹیگ کے محفوظات: جھڑتے

جی میں ہیں کیسے کیسے پھول

ہنستے گاتے روتے پھول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول
اور بہت کیا کرنے ہیں
کافی ہیں یہ تھوڑے پھول
وقت کی پھلواری میں نہیں
دامن میں ہیں اَیسے پھول
اس دھرتی کی رَونق ہیں
میرے کانٹے تیرے پھول
کیسے اندھے ہیں وہ ہاتھ
جن ہاتھوں نے توڑے پھول
اُن پیاسوں پر میرا سلام
جن کی خاک سے نکلے پھول
ایک ہری کونپل کے لیے
میں نے چھوڑے کتنے پھول
اُونچے اُونچے لمبے پیڑ
ساوے پتے پیلے پھول
مٹی ہی سے نکلے تھے
مٹی ہو گئے سارے پھول
مٹی کی خوشبو لینے
نیل گگن سے اُترے پھول
چادر اوڑھ کے شبنم کی
نکلے آنکھیں ملتے پھول
شام ہوئی اب گلیوں میں
دیکھو چلتے پھرتے پھول
سونا جسم سفید قمیص
گورے ہاتھ سنہرے پھول
کچی عمریں کچے رنگ
ہنس مکھ بھولے بھالے پھول
آنکھ آنکھ میں بھیگی نیند
ہونٹ ہونٹ سے جھڑتے پھول
گورے گورے ننگے پیر
جھلمل جھلمل کرتے پھول
جیسا بدن ویسا ہی لباس
جیسی مٹی وَیسے پھول
مہک اُٹھی پھر دل کی کتاب
یاد آئے یہ کب کے پھول
شام کے تارے تو ہی بتا
آج کدھر سے گزرے پھول
کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول
دھیان میں پھرتے ہیں ناصر
اچھی آنکھوں والے پھول
ناصر کاظمی

خُود اُجڑنا اور ہر منظر اُجڑتے دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
دمبدم طبعِ رسا اپنی بگڑتے دیکھنا
خُود اُجڑنا اور ہر منظر اُجڑتے دیکھنا
پالنا پیڑوں کو اپنی کاوشوں سے اور پِھر
ٹہنیوں سے زرد رُو پتّوں کو جھڑتے دیکھنا
دیکھنا کھیتوں پہ پالنہار بُوندوں کا نزول
فصل کو ژالوں سے پِٹتے اور اُکھڑتے دیکھنا
دیکھنا چندا پنپتے تا بہ نصفِ مہ سدا
اور اُسے پھر تیسویں تک ماند پڑتے دیکھنا
ایک دن آئے گا، کوڑا وقت کا لپکے گا اور
کھال اپنی بھی میاں ماجِد اُدھڑتے دیکھنا
ماجد صدیقی

جیسے چراغ آخری شب ہم لوگ نبڑتے جاتے ہیں

دیوان پنجم غزل 1693
دل جلتے کچھ بن نہیں آتی حال بگڑتے جاتے ہیں
جیسے چراغ آخری شب ہم لوگ نبڑتے جاتے ہیں
رنگ ثبات چمن کا اڑایا باد تند خزاں نے سب
برگ وبار و نورس گل کے غنچے جھڑتے جاتے ہیں
طینت میں ہے نیاز جنھوں کی مسجود ان کی سب ہے زمیں
خاک جو یہ پامال ہے اس سے سر کو رگڑتے جاتے ہیں
راہ عجب پیش آئی ہم کو یاں سے تنہا جانے کی
یار و ہمدم ہمراہی ہر گام بچھڑتے جاتے ہیں
ضعف دماغ سے افتاں خیزاں چلتے ہیں ہم راہ ہوس
دیکھیں کیا پیش آوے اب تو گرتے پڑتے جاتے ہیں
قد کو اپنے حشر خرام کے ایک نہیں لگ سکتا ہے
سرو روان باغ جہاں ہر چند اکڑتے جاتے ہیں
میر بلا ناساز طبیعت لڑکے ہیں خوش ظاہر بھی
ساتھ ہمارے راہ میں ہیں پھر ہم سے لڑتے جاتے ہیں
میر تقی میر