ٹیگ کے محفوظات: جماہتے

وے روگ اپنے جی کو ناحق بساہتے ہیں

دیوان اول غزل 294
جنس گراں کو تجھ سے جو لوگ چاہتے ہیں
وے روگ اپنے جی کو ناحق بساہتے ہیں
اس میکدے میں ہم بھی مدت سے ہیں ولیکن
خمیازہ کھینچتے ہیں ہر دم جماہتے ہیں
ناموس دوستی سے گردن بندھی ہے اپنی
جیتے ہیں جب تلک ہم تب تک نباہتے ہیں
سہل اس قدر نہیں ہے مشکل پسندی میری
جو تجھ کو دیکھتے ہیں مجھ کو سراہتے ہیں
وے دن گئے کہ راتیں نالوں سے کاٹتے تھے
بے ڈول میر صاحب اب کچھ کراہتے ہیں
میر تقی میر

رنگوں کے ہم ہیں عاشق ، خوشبو کو چاہتے ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 357
کھلتی ہوئی کلی کودل سے سراہتے ہیں
رنگوں کے ہم ہیں عاشق ، خوشبو کو چاہتے ہیں
ہم چھوڑتے نہیں ہیں چلتے ہوئے کسی کو
ممکن جہاں تلک ہورشتہ نباہتے ہیں
لگتا ہے میری جاں سے اٹھتی ہیں یہ صدائیں
پت چھڑ کی جب رتوں میں پتے کراہتے ہیں
ہو جاتی ہے خبرکہ اکتا گئے ہیں ہم سے
محفل میں اپنی ساجن جب بھی جماہتے ہیں
منصور تازہ روگ سے خود کو تباہتے ہیں
جی کو مثالِ میر ذرا ہم بساہتے ہیں
منصور آفاق