ٹیگ کے محفوظات: جزیروں

ٹھنڈی رات جزیروں کی

جنت ماہی گیروں کی
ٹھنڈی رات جزیروں کی
سبز سنہرے کھیتوں پر
پھواریں سرخ لکیروں کی
اس بستی سے آتی ہیں
آوازیں زنجیروں کی
کڑوے خواب غریبوں کے
میٹھی نیند امیروں کی
رات گئے تیری یادیں
جیسے بارش تیروں کی
مجھ سے باتیں کرتی ہے
خاموشی تصویروں کی
ان وِیرانوں میں ناصر
کان دبی ہے ہیروں کی
ناصر کاظمی

اے سمندر ! مرے آباد جزیروں میں نہ آ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 18
موج بن کر کہیں ہاتھوں کی لکیروں میں نہ آ
اے سمندر ! مرے آباد جزیروں میں نہ آ
خاک میں تجھ کوملادے گی کوئی تیز نظر
بادشاہوں کی طرح دیکھ فقیروں میں نہ آ
بند کردے گی تجوری میں تجھے تیری چمک
کنکروں میں کہیں رہ،قیمتی ہیروں میں نہ آ
جنگ شطرنج ہے ، چالوں کا سلیقہ ہے فقط
ہوش کر ، دیکھ برستے ہوئے تیروں میں نہ آ
عمر منصور اڑانوں میں فقط اپنی گزار
دام پہچان شکاری کے، اسیروں میں نہ آ
منصور آفاق