ٹیگ کے محفوظات: جریدہ

گویا کہ ہیں یہ لڑکے پیر زمانہ دیدہ

دیوان دوم غزل 939
ٹک پاس آ کے کیسے صرفے سے ہیں کشیدہ
گویا کہ ہیں یہ لڑکے پیر زمانہ دیدہ
اب خاک تو ہماری سب سبز ہو چلی ہے
کب منھ ادھر کرے گا وہ آہوے رمیدہ
یوسف سے کوئی کیونکر اس ماہ کو ملاوے
ہے فرق رات دن کا از دیدہ تا شنیدہ
بندے کے درد دل کو کوئی نہیں پہنچتا
ہر ایک بے حقیقت یاں ہے خدا رسیدہ
کیا وسوسہ ہے مجھ کو عزت سے جینے کا یاں
نکلا نہ میرے دل سے یہ خار ناخلیدہ
ہم کاڑھ کر جگر بھی آگے تمھارے رکھا
پھر یا نصیب اس پر تم جو ہوئے کبیدہ
سائے سے اپنے وحشت ہم کو رہی ہمیشہ
جوں آفتاب ہم بھی کیسے رہے جریدہ
منصور کی نظر تھی جو دار کی طرف سو
پھل وہ درخت لایا آخر سر بریدہ
ذوق سخن ہوا ہے اب تو بہت ہمیں بھی
لکھ لیں گے میر جی کے کچھ شعر چیدہ چیدہ
میر تقی میر

بے نیازیاں اُسکی، ہو کے آبدیدہ لکھ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 16
بات ایک جیسی ہے، ہجو یا قصیدہ لکھ
بے نیازیاں اُسکی، ہو کے آبدیدہ لکھ
جمع کر یہ آوازیں میری خود کلامی کی
اور ان کی املا سے درد کا جریدہ لکھ
ذہن کی ہدایت ہے، کاتب زمانہ کو
عقل کی دلیلوں سے آج کا عقیدہ لکھ
رنگ و روشنائی کی حدِّ اوج سے اوپر
ہو سکے تو اندازاً قامتِ کشیدہ لکھ
دیکھ اِن خلاؤں میں نقطہ ہائے نور اُس کے
تو بھی ایک خالق ہے شعر چیدہ چیدہ لکھ
آفتاب اقبال شمیم

لے آیا کہاں دل تپیدہ

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 25
اک سانس ہے نوحہ، اک قصیدہ
لے آیا کہاں دل تپیدہ
ہیں لفظ کہ کاغذی شگوفے
ہیں شعر کہ داغ چیدہ چیدہ
ہر بات ہے اک ورق پرانا
ہر فکر ہے اک نیا جریدہ
کچھ مثل خدنگ ہیں ہوا میں
کچھ مثل کماں ہیں سرکشیدہ
گلشن میں ہو کے بھی نہیں ہیں
ہم صورت شاخ نو بریدہ
تکتے ہیں رقص ساغر گل
پیتے ہیں شبنم چکیدہ
اپنی خوشبو ہے طنز ہم پر
ہم گل ہیں مگر صبا گزیدہ
ہر راہ میں گرد بن کے ابھرا
یہ زیست کا آہوئے رمیدہ
دل تک نہ گئی نگاہ اپنی
پردہ بنا دامن دریدہ
یا میری نظر نظر نہیں ہے
یا رنگ حیات ہے پریدہ
اس راہ پہ چل رہے ہیں باقیؔ
جس سے واقف نہ دل نہ دیدہ
باقی صدیقی