ٹیگ کے محفوظات: جرأت

ایسے ویرانے کے اب بسنے کو مدت چاہیے

دیوان اول غزل 490
دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے
ایسے ویرانے کے اب بسنے کو مدت چاہیے
عشق و مے خواری نبھے ہے کوئی درویشی کے بیچ
اس طرح کے خرج لاحاصل کو دولت چاہیے
عاقبت فرہاد مر کر کام اپنا کر گیا
آدمی ہووے کسی پیشے میں جرأت چاہیے
ہو طرف مجھ پہلواں شاعر کا کب عاجز سخن
سامنے ہونے کو صاحب فن کے قدرت چاہیے
عشق میں وصل و جدائی سے نہیں کچھ گفتگو
قرب و بعد اس جا برابر ہے محبت چاہیے
نازکی کو عشق میں کیا دخل ہے اے بوالہوس
یاں صعوبت کھینچنے کو جی میں طاقت چاہیے
تنگ مت ہو ابتداے عاشقی میں اس قدر
خیریت ہے میر صاحب دل سلامت چاہیے
میر تقی میر

رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا

دیوان اول غزل 122
غلط ہے عشق میں اے بوالہوس اندیشہ راحت کا
رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا
زمیں اک صفحۂ تصویر بیہوشاں سے مانا ہے
یہ مجلس جب سے ہے اچھا نہیں کچھ رنگ صحبت کا
جہاں جلوے سے اس محبوب کے یکسر لبالب ہے
نظر پیدا کر اول پھر تماشا دیکھ قدرت کا
ہنوز آوارئہ لیلیٰ ہے جان رفتہ مجنوں کی
موئے پر بھی رہا ہوتا نہیں وابستہ الفت کا
حریف بے جگر ہے صبر ورنہ کل کی صحبت میں
نیاز و ناز کا جھگڑا گرو تھا ایک جرأت کا
نگاہ یاس بھی اس صید افگن پر غنیمت ہے
نہایت تنگ ہے اے صید بسمل وقت فرصت کا
خرابی دل کی اس حد ہے کہ یہ سمجھا نہیں جاتا
کہ آبادی بھی یاں تھی یا کہ ویرانہ تھا مدت کا
نگاہ مست نے اس کی لٹائی خانقہ ساری
پڑا ہے برہم اب تک کارخانہ زہد و طاعت کا
قدم ٹک دیکھ کر رکھ میر سر دل سے نکالے گا
پلک سے شوخ تر کانٹا ہے صحراے محبت کا
میر تقی میر