منصور آفاق ۔ غزل نمبر 165
چاندنی پھیلی ہوئی تھی ریت کی شہنیل پر
چاند کا دل جل رہا تھا دور لاکھوں میل پر
ایک اچھے دوست کے ہمراہ گزری تھی کبھی
فروری کی ایک اجلی پیر ’’چشمہ جھیل‘‘ پر
لمبی کر کے اپنی گردن گھولتی تھی زرد چونچ
کونج تھی مامور شاید درد کی ترسیل پر
اور پھر تصویر پر تاریک سائے رہ گئے
روشنی سی پڑ گئی تھی کیمرے کی ریل پر
مانگتی ہے زندگی پھر روشنی الہام کی
اور ابد کی خامشی ہے قریہء جبریل پر
آئینے سے پھوٹتی ہیں نور کی پرچھائیاں
کیا کہوں منصور اپنے عکس کی تمثیل پر
منصور آفاق