ٹیگ کے محفوظات: جبریل

چاند کا دل جل رہا تھا دور لاکھوں میل پر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 165
چاندنی پھیلی ہوئی تھی ریت کی شہنیل پر
چاند کا دل جل رہا تھا دور لاکھوں میل پر
ایک اچھے دوست کے ہمراہ گزری تھی کبھی
فروری کی ایک اجلی پیر ’’چشمہ جھیل‘‘ پر
لمبی کر کے اپنی گردن گھولتی تھی زرد چونچ
کونج تھی مامور شاید درد کی ترسیل پر
اور پھر تصویر پر تاریک سائے رہ گئے
روشنی سی پڑ گئی تھی کیمرے کی ریل پر
مانگتی ہے زندگی پھر روشنی الہام کی
اور ابد کی خامشی ہے قریہء جبریل پر
آئینے سے پھوٹتی ہیں نور کی پرچھائیاں
کیا کہوں منصور اپنے عکس کی تمثیل پر
منصور آفاق

وہی فانوس مری صبح کی قندیل ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 56
تیرے ماتھے کی جو محراب سے تشکیل ہوا
وہی فانوس مری صبح کی قندیل ہوا
نامکمل تھی ابھی مرے خدا کی تخلیق
وہ ترا نام تھا جو باعث تکمیل ہوا
میرے دامن میں بکھرنے لگے لاکھوں سورج
کوئی آنسو جو تری یاد میں تحلیل ہوا
تیرے انداز تمدن بھری تاریخ ہوئے
تیرا چلنامری تہذیب میں تبدیل ہوا
تیری رحمت کی بشارت سے بھرا رہتا تھا
ایک عیسیٰ جو کبھی صاحبِ انجیل ہوا
اس کے قدموں کی کرم باری کے صدقے منصور
میرا ہر لفظ مرے دور کا جبریل ہوا
منصور آفاق