ٹیگ کے محفوظات: جاویں

کاش اجل بے وقت ہی پہنچے ایک طرف مرجاویں ہم

دیوان پنجم غزل 1678
چاہ چھپی بے پردہ ہوئی اب یارب کیدھر جاویں ہم
کاش اجل بے وقت ہی پہنچے ایک طرف مرجاویں ہم
اس کی نگہ کی اچپلیوں سے غش کرتے ہیں جگرداراں
کیا ٹھہرے گا دل اپنا جو بجلی سے ڈر جاویں ہم
صبر و قرار جو ٹک ہووے تو بہتر ہیں بے طاقت بھی
ہاتھ رکھے دل ہی پر کب تک اودھر اکثر جاویں ہم
خاک برابر عاشق ہیں اس کوچے میں ناچاری سے
گھر ہوں خانہ خرابوں کے تو اپنے بھی گھر جاویں ہم
میر اپنی سب عمر گئی ہے سب کی برائی ہی کرتے
سر پر آیا جانے کا موسم اب تو بھلا کر جاویں ہم
میر تقی میر

قیامت کو مگر عرصے میں آویں

دیوان اول غزل 327
مرے آگے نہ شاعر نام پاویں
قیامت کو مگر عرصے میں آویں
پری سمجھے تجھے وہم و گماں سے
کہاں تک اور ہم اب دل چلاویں
ترے عاشق ترے رسوا کہائے
ترے ہوکر کہہ اب کس کے کہاویں
مزاج اپنا غیور ازبس پڑا ہے
ترے غم میں کسے خاطر میں لاویں
پھرے ہے شیخ مجلس ہی میں رقصاں
ادھر آنکلے تو ہم بھی نچاویں
نظر اے ابر اب مت آ مبادا
کہیں میری بھی آنکھیں ڈبڈباویں
قدم بوسی تلک مختار ہیں غیر
زیادہ لگ چلیں تو سر میں کھاویں
نہ آیا وہ تو کیا ہم نیم جاں بھی
بغیر اس کے ملے دنیا سے جاویں
چلی ہے تو تو اے جان الم ناک
ٹک اک رہ جا کہ ہم رخصت ہو آویں
چلا مقدور سے غم میر آگے
زمیں پھٹ جائے یارب ہم سماویں
میر تقی میر