ٹیگ کے محفوظات: جانباز

چلا عشق خواری کو ممتاز کرتا

دیوان دوم غزل 762
رہا میں تو عزت کا اعزاز کرتا
چلا عشق خواری کو ممتاز کرتا
نہ ہوتا میں حسرت میں محتاج گریہ
جو کچھ آنسوئوں کو پس انداز کرتا
نہ ٹھہرا مرے پاس دل ورنہ اب تک
اسے ایسا ہی میں تو جانباز کرتا
جو جانوں کہ درپے ہے ایسا وہ دشمن
تو کاہے کو الفت سے میں ساز کرتا
تو تمکین سے کچھ نہ بولا وگرنہ
مسیحا صنم ترک اعجاز کرتا
گلوگیر ہی ہو گئی یاوہ گوئی
رہا میں خموشی کو آواز کرتا
زیارت گہ کبک تو ہو بلا سے
ٹک آ میر کی خاک پر ناز کرتا
میر تقی میر

ابھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد

دیوان اول غزل 198
آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد
ابھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد
جینا مرا تو تجھ کو غنیمت ہے ناسمجھ
کھینچے گا کون پھر یہ ترے ناز میرے بعد
شمع مزار اور یہ سوز جگر مرا
ہر شب کریں گے زندگی ناساز میرے بعد
حسرت ہے اس کے دیکھنے کی دل میں بے قیاس
اغلب کہ میری آنکھیں رہیں باز میرے بعد
کرتا ہوں میں جو نالے سر انجام باغ میں
منھ دیکھو پھر کریں گے ہم آواز میرے بعد
بن گل موا ہی میں تو پہ تو جا کے لوٹیو
صحن چمن میں اے پر پرواز میرے بعد
بیٹھا ہوں میر مرنے کو اپنے میں مستعد
پیدا نہ ہوں گے مجھ سے بھی جانباز میرے بعد
میر تقی میر