ٹیگ کے محفوظات: جاؤ

جس دم پانی سر سے گزرا آپ کہیں کھو جاؤ گے

پیار ہے بھید کا گہرا ساگر، اس کی تھاہ نہ پاؤ گے
جس دم پانی سر سے گزرا آپ کہیں کھو جاؤ گے
دھوپ بُری ہے او ر نہ چھاؤں، سمے سمے کی ساری بات
رَنگوں کے اس کھیل سے کب تک اپنی جان چُراؤ گے
جیتی جاگتی تصویریں ہیں دنیا بھر کی آنکھوں میں
اپنا آپ جہاں بھی دیکھا، سِمٹو گے شرماؤ گے
اتنا ہی بوجھل خاک کا بندھن، جتنی سُندر دھیان کی ڈور
پاؤں زمیں سے لگے رہیں گے، اونچا اڑتے جاؤ گے
بچھڑے لمحے راہ نہ بھولیں رات کے سُونے آنگن کی
خود ہی کریدو گے زخموں کو، خود ہی انھیں سہلاؤ گے
پاگل پن میں مَن کا موتی سستے داموں بیچ دیا
اب کنکر پتھر چُن چُن کر اپنا جی بہلاؤ گے
اس کے چَرَن کی خاک ہی چُھو لو، ہوش نہ ہو گا اتنا بھی
آنکھوں سے حسرت ٹپکے گی، دور کھڑے للچاؤ گے
شانت نگر کا کھوج لگا کر یہ دُکھ بھی سہنا ہو گا
جانے پہچانے لوگوں میں پردیسی کہلاؤ گے
شکیب جلالی

شمع بن جاؤ رات اندھیری ہے

راہ دکھلاؤ رات اندھیری ہے
شمع بن جاؤ رات اندھیری ہے
جا رہے ہیں وہ روٹھ کر اِس وقت
ان کو سمجھاؤ رات اندھیری ہے
اب تو کچھ بھی نظر نہیں آتا
شمعِ مے لاؤ رات اندھیری ہے
پھنس ہی جائیں گے بے اماں پنچھی
جال پھیلاؤ رات اندھیری ہے
تیرگی کا ہے آنکھ پر پہرہ
اب تو آجاؤ رات اندھیری ہے
میری آنکھوں میں جل رہے ہیں دیے
یوں نہ گھبراؤ رات اندھیری ہے
چاندنی ہو شکیبؔ کی تم ہی
بُھول بھی جاؤ رات اندھیری ہے
شکیب جلالی

غم کی میعاد بڑھا جاؤ کہ کچھ رات کٹے

درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے
غم کی میعاد بڑھا جاؤ کہ کچھ رات کٹے
ہجر میں آہ و بکا رسمِ کہن ہے لیکن
آج یہ رسم ہی دُہراؤ کہ کچھ رات کٹے
یوں تو تم روشنیٔ قلب و نظر ہو لیکن
آج وہ معجزہ دِکھلاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل دُکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات
اُسی بے درد کو لے آؤ کہ کچھ رات کٹے
دم گھٹا جاتا ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ کہ کچھ رات کٹے
میں بھی بیکار ہوں اور تم بھی ہو ویران بہت
دوستو آج نہ گھر جاؤ کہ کچھ رات کٹے
چھوڑآئے ہو سرِشام اُسے کیوں ناصر
اُسے پھر گھر سے بلا لاؤ کہ کچھ رات کٹے
ناصر کاظمی

رُتوں کے رنگ سبھی ساتھ لیتے جاؤ گے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
بچھڑ چلے ہو تو کیا پھرکبھی نہ آؤ گے
رُتوں کے رنگ سبھی ساتھ لیتے جاؤ گے
بھٹکنے دو گے نہ کب تک اِسے قریب اپنے
مرے خیال کے پر کب تلک جلاؤ گے
فلک پہ قوسِ قزح جس طرح پسِ باراں
افق پہ کیا مرے، تم یوں نہ جھلملاؤ گے
نہ رہ سکیں گے چھپے یہ خطوط لُطف، جنہیں
بہ احتیاط تہ پیرہن چھپاؤ گے
وُہ جس سے جسم میں چنچل رُتوں کے در وا ہوں
وُہ اِذنِ خاص زباں پر کبھی تو لاؤ گے
پسِ خیال لئے شوخیٔ گریز اپنی
ہوئی ہے شام تو اب رات بھر ستاؤ گے
گمان و وہم کی دلدل سے جانے کب ماجدؔ
ہماری جانِ گرفتہ کو تم چھڑاؤ گے
ماجد صدیقی

پھول ہو تم کلی نہ بن جاؤ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
بات سمجھو نہ اور ترساؤ
پھول ہو تم کلی نہ بن جاؤ
چاند سے اِس رُخِ منّور کو
حرفِ انکار سے نہ گہناؤ
ہم سمجھتے ہیں چشم و دل کی زباں
اتنا ناداں ہمیں نہ ٹھہراؤ
مثلِ خوشبُو در آؤ ہر در سے
مثلِ گُل اِس نظر میں لہراؤ
مسکنِ درد ہے یہ تن اِس کو
لمس و لطفِ نظر سے سہلاؤ
یخ ہیں پہلو مرے کبھی اِن کو
حدتِ جسم و جاں سے گرماؤ
ہو مزّین تمہی سے اپنا بدن
اِس کے صفحوں پہ یُوں اُتر آؤ
ماجد صدیقی

رسوائی سے ڈرنے والوں بات تمھی پھیلاؤ گے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 130
اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے
رسوائی سے ڈرنے والوں بات تمھی پھیلاؤ گے
اس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت
ترکِ محبت کرنے والو! تم تنہا رہ جاؤ گے
ہجر کے ماروں کی خوش فہمی! جاگ رہے ہیں پہروں سے
جیسے یوں شب کٹ جائے گی، جیسے تم آ جاؤ گے
زخم تمنا کا بھر جانا گویا جان سے جانا ہے
اس کا بھلانا سہل نہیں ہے خود کو بھی یاد آؤ گے
چھوڑو عہدِ وفا کی باتیں، کیوں جھوٹے اقرار کریں
کل میں بھی شرمندہ ہوں گا، کل تم بھی پچھتاؤ گے
رہنے دو یہ پند و نصیحت ہم بھی فراز سے واقف ہیں
جس نے خود سو زخم سہے ہوں اس کو کیا سمجھاؤ گے
احمد فراز