ٹیگ کے محفوظات: تھرتھرائے

اِک بار جو آئے پھر نہ آئے

کیا دن مجھے عشق نے دکھائے
اِک بار جو آئے پھر نہ آئے
اُس پیکرِ ناز کا فسانہ
دل ہوش میں آئے تو سنائے
وہ روحِ خیال و جانِ مضموں
دل اُس کو کہاں سے ڈھونڈ لائے
آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر
عارض کہ شراب تھرتھرائے
مہکی ہوئی سانس نرم گفتار
ہر ایک روش پہ گل کھلائے
راہوں پہ ادا ادا سے رقصاں
آنچل میں حیا سے منہ چھپائے
اُڑتی ہوئی زلف یوں پریشاں
جیسے کوئی راہ بھول جائے
کچھ پھول برس پڑے زمیں پر
کچھ گیت ہوا میں لہلہائے
ناصر کاظمی

چراغ بجھنے پہ آئے تو پھڑپھڑائے بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
دمِ زوال ، رعونت زباں پہ لائے بہت
چراغ بجھنے پہ آئے تو پھڑپھڑائے بہت
یہی تو ڈُوبتے سُورج کا اِک کرشمہ ہے
بڑھائے قامتِ کوتاہ تک کے، سائے بہت
قلم کے چاک سے پھوٹے وہ، مثل بیلوں کے
جو لفظ ہم نے زباں کے تلے دبائے بہت
ستم ستم ہے کوئی جان دار ہو اُس کو
نگل کے آب بھی اِک بار تھرتھرائے بہت
ہمارے گھر ہی اُترتی نہ کیوں سحر ماجد
تمام رات ہمِیں تھے جو کلبلائے بہت
ماجد صدیقی