ٹیگ کے محفوظات: تک

ہم تمہیں ڈھونڈنے دور تک جائیں گے

راستے جب گلابوں سے ڈھک جائیں گے
ہم تمہیں ڈھونڈنے دور تک جائیں گے
پیش رو نسل کی دلبری کے لیے
زرد پتّے شجر سے سرک جائیں گے
ہم ہیں راہِ گُماں کے سفر پر رواں
راستہ مل گیا تو بھٹک جائیں گے
یوں نہ دیکھو ہمیں، یوں نہ دیکھو ہمیں
ہم بہک جائیں گے، ہم بہک جائیں گے
تم دلاسوں کے پتھر نہیں پھینکنا
درد کے دائرے دور تک جائیں گے
یاور ماجد

حیرت سے پلک جھپک رہی ہوں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 56
منظر ہے وہی ٹھٹک رہی ہوں
حیرت سے پلک جھپک رہی ہوں
یہ تُو ہے کہ میرا واہمہ ہے!
بند آنکھوں سے تجھ کو تک رہی ہوں
جیسے کہ کبھی نہ تھا تعارف
یوں ملتے ہوئے جھجک رہی ہوں
پہچان! میں تیری روشنی ہوں
اور تیری پلک پلک رہی ہوں
کیا چَین ملا ہے………سر جو اُس کے
شانوں پہ رکھے سِسک رہی ہوں
پتّھر پہ کھلی ، پہ چشمِ گُل میں
کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہوں
جگنو کہیں تھک کے گرِ چُکا ہے
جنگل میں کہاں بھٹک رہی ہوں
گڑیا مری سوچ کی چھنی کیا
بچّی کی طرح بِلک رہی ہوں
اِک عمر ہُوئی ہے خُود سے لڑتے
اندر سے تمام تھک رہی ہوں
رس پھر سے جڑوں میں جا رہا ہے
میں شاخ پہ کب سےپک رہی ہوں
تخلیقِ جمالِ فن کا لمحہ!
کلیوں کی طرح چٹک رہی ہوں
پروین شاکر

کہیں ہم نے پتہ پایا نہ ہر گز آج تک تیرا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 8
یہاں بھی تو وہاں بھی تو زمیں تیری فلک تیرا
کہیں ہم نے پتہ پایا نہ ہر گز آج تک تیرا
صفات و ذات میں یکتا ہے تو اے واحد مطلق
نہ کوئی تیرا ثانی کوئی مشترک تیرا
جمال احمد و یوسف کو رونق تو نے بخشی ہے
ملاحت تجھ سے شیریں حسن شیریں میں نمک تیرا
ترے فیض و کرم سے نار و نور آپس میں یکدل ہیں
ثنا گر یک زبان ہر ایک ہے جن و ملک تیرا
نہ جلتا طور کیونکر کس طرح موسی نہ غش کھاتے
کہاں یہ تاب و طاقت جلوہ دیکھئے مر دیک تیرا
دعا یہ ہے کہ وقت مرگ اسکی مشکل آساں ہو
زباں پر داغ کے نام آئے یا رب یک بہ یک تیرا
داغ دہلوی

اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 189
گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے
اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے
ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی
جام ہوں گے چھلگ گئے ہوں گے
وہ بھی اب ہم سے تھک گیا ہو گا
ہم بھی اب اس سے تھک گئے ہوں گے
شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے
کتنے ہی لوگ حرص شہرت میں
دار پر خود لٹک گئے ہوں گے
شکر ہے اس نگاہ کم کا میاں
پہلے ہی ہم کھٹک گئے ہوں گے
ہم تو اپنی تلاش میں اکثر
از سما تا سمک گئے ہوں گے
اس کا لشکر جہاں تہاں یعنی
ہم بھی بس بے کمک گئے ہوں گے
جون ، اللہ اور یہ عالم
بیچ میں ہم اٹک گئے ہوں گے
جون ایلیا

عشق کی مے سے چھک رہے ہیں ہم

دیوان دوم غزل 854
کچھ نہ پوچھو بہک رہے ہیں ہم
عشق کی مے سے چھک رہے ہیں ہم
سوکھ غم سے ہوئے ہیں کانٹا سے
پر دلوں میں کھٹک رہے ہیں ہم
وقفۂ مرگ اب ضروری ہے
عمر طے کرتے تھک رہے ہیں ہم
کیونکے گرد علاقہ بیٹھ سکے
دامن دل جھٹک رہے ہیں ہم
کون پہنچے ہے بات کی تہ کو
ایک مدت سے بک رہے ہیں ہم
ان نے دینے کہا تھا بوسۂ لب
اس سخن پر اٹک رہے ہیں ہم
نقش پا سی رہی ہیں کھل آنکھیں
کس کی یوں راہ تک رہے ہیں ہم
دست دے گی کب اس کی پابوسی
دیر سے سر پٹک رہے ہیں ہم
بے ڈھب اس پاس ایک شب تھے گئے
سو کئی دن سرک رہے ہیں ہم
خام دستی نے ہائے داغ کیا
پوچھتے کیا ہو پک رہے ہیں ہم
میر شاید لیں اس کی زلف سے کام
برسوں سے تو لٹک رہے ہیں ہم
میر تقی میر

دل ساکنان باغ کے تجھ سے اٹک گئے

دیوان اول غزل 478
کبکوں نے تیری چال جو دیکھی ٹھٹھک گئے
دل ساکنان باغ کے تجھ سے اٹک گئے
اندوہ وصل و ہجر نے عالم کھپا دیا
ان دو ہی منزلوں میں بہت یار تھک گئے
مطلق اثر نہ اس کے دل نرم میں کیا
ہر چند نالہ ہاے حزیں عرش تک گئے
افراط گریہ سے ہوئیں آبادیاں خراب
سیلاب میرے اشک کے اژدر بھی بھک گئے
وے مے گسار ظرف جنھیں خم کشی کے تھے
بھر کر نگاہ تونے جو کی ووہیں چھک گئے
چند اے سپہر چھاتی ہماری جلا کرے
اب داغ کھاتے کھاتے کلیجے تو پک گئے
عشاق پر جو وے صف مژگاں پھریں تو میر
جوں اشک کتنے چو گئے کتنے ٹپک گئے
میر تقی میر

رستے ہمارے پاؤں تلے سے سرک گئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 42
منزل قریب آئی تو ایسے بہک گئے
رستے ہمارے پاؤں تلے سے سرک گئے
نکلے کبھی نہ اپنے مضافات سے پرے
اپنی تلاش میں جو بہت دور تک گئے
اک نسل کے لہو سے چراغاں تھے راستے
یہ کیا ہوا کہ قافلے پھر بھی بھٹک گئے
خبروں کے شعبدے وُہ دکھا کر دم سحر
شہ سرخیوں سے چشمِ بصارت کو ڈھک گئے
آئے نظر چراغ سے چہرے فضاؤں میں
یادیں جو ٹمٹمائیں ، اندھیرے مہک گئے
دیکھو نا اب بھی ہال کی خالی ہیں کرسیاں
ہم تو دکھا دکھا کے کرامات تھک گئے
آفتاب اقبال شمیم

تم آدمی ہو، تو آدمی کی، ہتک نہ کرنا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 30
تمیزِ فرزندِ ارض و ابنِ فلک نہ کرنا
تم آدمی ہو، تو آدمی کی، ہتک نہ کرنا
یہ جمع و تفریق، ضرب و تقسیم کی صدی ہے
عقیدہ ٹھہرا عدد کی منطق پہ شک نہ کرنا
پسِ خراباتِ بند جاری ہے مے گساری
سکھایا جام و سبو کو ہم نے کھنک نہ کرنا
چھلاوے بن جائیں آگے جا کر یہی غزالاں
تعاقب ان مہ وشوں کا تم دور تک نہ کرنا
یہ غم کہ معنی تجھے لگے ہے سراب معنی
اکیلے سہنا، اسے غمِ مشترک نہ کرنا
آفتاب اقبال شمیم

زمیں اللہ کی ہے اور سب کا حق برابر ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 612
دریچوں پر اذانِ وقت کی دستک برابر ہے
زمیں اللہ کی ہے اور سب کا حق برابر ہے
خدا پر رزق کی تقسیم کا الزام صدیوں سے
مساواتِ محمد میں مقدر تک برابر ہے
جہاں ہم خود نہیں رہتے وہ گھر اپنا نہیں ہوتا
کرایہ خاک کا اور سود کی کالک برابر ہے
تمہیں اے صاحبانِ زر ،ہے دوزخ کی وعیدِ خاص
ڈرو۔دنیا میں بھی اس کی پکڑبے شک برابر ہے
کبھی گزرے نہ وہ تجھ پرجوگزری مجھ پہ سوگزری
قیامت ہجر کی اورموت کی ٹھنڈک برابر ہے
مجھے لگتا ہے تم سوئے نہیں ہو رات بھر منصور
تمہاری چار پائی پر پڑی اجرک برابر ہے
منصور آفاق

یا مجھے اپنے ڈرائنگ روم تک محدود رکھ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 409
یا بدن کے سرخ گجروں کی مہک محدود رکھ
یا مجھے اپنے ڈرائنگ روم تک محدود رکھ
دھن کوئی کومل سی بس ترتیب کے لمحے میں ہے
اے محافظ کالے بوٹوں کی دھمک محدود رکھ
سو رہا ہے تیرے پہلو میں کوئی غمگین شخص
چوڑیوں کی رنگ پروردہ کھنک محدود رکھ
باغباں ہر شاخ سے لپٹے ہوئے ہیں زرد سانپ
گھونسلوں تک اپنی چڑیوں کی چہک محدود رکھ
جاگنے لگتے ہیں گلیوں میں غلط فہمی کے خواب
آئینے تک اپنی آنکھوں کی چمک محدود رکھ
لوگ چلنے لگتے ہیں قوسِ قزح کی شال پر
اپنے آسودہ تبسم کی دھنک محدود رکھ
منصور آفاق

طلسمِ شب ہے سحر تک بلائیں حاکم ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 371
دیارِ گل میں بھیانک بلائیں حاکم ہیں
طلسمِ شب ہے سحر تک بلائیں حاکم ہیں
سفید پوش ہیں سہمے ہوئے مکانوں میں
گلی میں پھرتی ہے کالک بلائیں حاکم ہیں
یہاں سے ہجرتیں کرنی ہیں خوش دماغوں نے
یہاں ہے موت کی ٹھنڈک بلائیں حاکم ہیں
یہ گفتگو سے سویرے طلوع کرتی ہیں
وطن پہ رات کی زیرک بلائیں حاکم ہیں
نکل پڑے ہیں ہزاروں سگانِ آدم خور
کھلے ہیں موت کے پھاٹک بلائیں حاکم ہیں
وہ ساری روشنیوں کی سہانی آوازیں
تھا اقتدار کا ناٹک بلائیں حاکم ہیں
جو طمطراق سے جالب کے گیت گاتی ہیں
وہ انقلاب کی گاہک بلائیں حاکم ہیں
کسی چراغ میں ہمت نہیں ہے جلنے کی
بڑا اندھیرا ہے بے شک بلائیں حاکم ہیں
سعودیہ سے ہواہے نزولِ پاک ان کا
چلو وطن میں مبارک بلائیں حاکم ہیں
خدا کے نام دھماکے نبیؐ کے نام فساد
بنامِ دین ہے بک بک بلائیں حاکم ہیں
یہ مال و زر کی پجاری ہیں وقت کی قارون
نہیں ہے مذہب و مسلک بلائیں حاکم ہیں
نظر نہ آئیں سہولت سے آنکھ کو منصور
لگا کے دیکھئے عینک بلائیں حاکم ہیں
منصور آفاق

ڈر رہا ہے دریچے تک سے تُو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 223
رنگ لے کر نئے، دھنک سے تُو
ڈر رہا ہے دریچے تک سے تُو
یہ تجھے بھی مسافرت دے گی
مانگتا کیاہے اِس سڑک سے تُو
کھنکھناتی ہوئی زمیں سے میں
اور آیا ہوا فلک سے تُو
دل پہ تصویر ہو گیا کیسے
اپنی بس ایک ہی جھلک سے تُو
شور آنکھوں کا کیسا تھا منصور
بھر گیا لمس کی مہک سے تُو
منصور آفاق

جنت کے بنگلے کا پھاٹک اور شراب

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 132
ایک شرابی ہاتھ کی دستک اور شراب
جنت کے بنگلے کا پھاٹک اور شراب
پیاس ہوائے شام میں اپنے بین کرے
ابر ہے بامِ ذات کی حد تک اور شراب
مجھ سے تیری یادیں چھین نہیں سکتے
اُس بازار کے سارے گاہک اور شراب
سات سمندر پار کا ایک پرانا کوٹ
بیچ سڑک کے ٹوٹی عینک اور شراب
سناٹوں کی آوازوں کا ایک ہجوم
شور میں گم ہو جانے کا شک اور شراب
تیری گلی آوازِ سگاں ، مجذوب ضمیر
ڈوب رہی ہے رات کی کالک اور شراب
عمر ہوئی میخانے کے دروازے پر
دست و گریباں میرا مسلک اور شراب
رات کے پچھلے پہر لہو کی صورت تھے
میری رگوں میں گھنگرو ڈھولک اور شراب
کھلتا سرخ سا فیتہ، دوشیزہ فائل
انٹر کام کی بجتی دستک اور شراب
دیکھ کے موسم خود ہی بچھتے جاتے ہیں
صحرا کی سہ پہر میں اجرک اور شراب
ایک گلی میں دو دیواریں ہیں منصور
ساتھ مری بے مقصد بک بک اور شراب
منصور آفاق