منصور آفاق ۔ غزل نمبر 114
ایک کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی کی تڑپ نے دیا
ولولہ کیسا حیرت زدہ دید کی ایک لپ نے دیا
اس لڑائی سے پچھلی لڑائی کا کوئی تعلق نہ تھا
اِس لڑائی کو لیکن بڑھاوا گذشتہ جھڑپ نے دیا
تیرے جیسی کئی اور تھیں تجھ سے بہتربھی مل سکتی تھی
تیرے غم کایونہی کینسردل میں برسوں پنپنے دیا
میں نے سورج کو پھراک کرشمہ کہا اس پہ نظمیں کہیں
پہلے کچھ دیرآتی شعاعوں سے کمرے کو تپنے دیا
برف کی رات میں تم ہمیشہ رہو یہ دعادی اسے
جس ڈرنک کارنر کاپتہ چائے کے گرم کپ نے دیا
منصور آفاق