ٹیگ کے محفوظات: توڑ

جان و دل کے سارے رشتے توڑ دو

جون ایلیا ۔ قطعہ نمبر 12
اب مجھے آزاد کر دو چھوڑ دو
جان و دل کے سارے رشتے توڑ دو
جب کوئی منزل نہیں میری تو پھر
رُخ کسی جانب بھی میرا موڑ دو
قطعہ
جون ایلیا

پلکوں کی صف سے بھیڑیں گئیں منھ کو موڑ موڑ

دیوان اول غزل 230
آشوب دیکھ چشم تری سر رہے ہیں جوڑ
پلکوں کی صف سے بھیڑیں گئیں منھ کو موڑ موڑ
لاکھوں جتن کیے نہ ہوا ضبط گریہ لیک
سنتے ہی نام آنکھ سے آنسو گرے کڑوڑ
زخم دروں سے میرے نہ ٹک بے خبر رہو
اب ضبط گریہ سے ہے ادھر ہی کو سب نچوڑ
گرمی سے بر شگال کی پروا ہے کیا ہمیں
برسوں رہی ہے جان کے رکنے کی یاں مروڑ
بلبل کی اور چشم مروت سے دیکھ ٹک
بے درد یوں چمن میں کسو پھول کو نہ توڑ
کچھ کوہکن ہی سے نہیں تازہ ہوا یہ کام
بہتیرے عاشقی میں موئے سر کو پھوڑ پھوڑ
بے طاقتی سے میر لگے چھوٹنے پران
ظالم خیال دیکھنے کا اس کے اب تو چھوڑ
میر تقی میر

پر اپنے ساتھ گلی کو بھی موڑ دیتا ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 282
تم ایسے لوگوں کا رستہ میں چھوڑ دیتا ہوں
پر اپنے ساتھ گلی کو بھی موڑ دیتا ہوں
میں اس مقام پہ پہنچا ہوں عشق میں کہ جہاں
فراق و وصل کو آپس میں جوڑ دیتا ہوں
مجھے مزاج کی وحشت نے فتح مند رکھا
کہ ہار جاؤں تو سر اپنا پھوڑ دیتا ہوں
ابھی دھڑکتا ہے دل بھیڑیے کے سینے میں
ابھی غزال پکڑتا ہوں ، چھوڑ دیتا ہوں
ڈرا ہوا ہوں میں اپنے مزاج سے منصور
جو میری ہو نہ سکے، شے وہ توڑ دیتا ہوں
منصور آفاق

ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 108
شکستِ جاں سے حصارِ الم کو توڑ دیا
ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا
یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے
لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا
قریب تر کسی پب کے مری رہائش تھی
اسی قرابتِ مے نے قسم کو توڑ دیا
قدم قدم پہ دلِ مصلحت زدہ رکھ کر
کسی نے راہِ وفا کے بھرم کو توڑ دیا
ہزار بار کہانی میں میرے ہیرو نے
دعا کی ضرب سے دستِ ستم کو توڑ دیا
سلام اس کی صلیبوں بھری جوانی پر
وہ جس نے موت کے جاہ و حشم کو توڑ دیا
نکل پڑا میں تلاشِ یزید میں اک دن
اور احتجاج کے کالے علم کو توڑدیا
یہ انتہا ہے دماغِ خراب کی منصور
دھرم کو چھوڑ دیا اور صنم کو توڑ دیا
منصور آفاق

رُخ دریا کا موڑ گئی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 156
کشتی نقش وہ چھوڑ گئی
رُخ دریا کا موڑ گئی
کیسی آواز آئی تھی
کیا سناٹا چھوڑ گئی
دل کی ایک کرن باقیؔ
سب آئنے توڑ گئی
باقی صدیقی