منصور آفاق ۔ غزل نمبر 108
شکستِ جاں سے حصارِ الم کو توڑ دیا
ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا
یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے
لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا
قریب تر کسی پب کے مری رہائش تھی
اسی قرابتِ مے نے قسم کو توڑ دیا
قدم قدم پہ دلِ مصلحت زدہ رکھ کر
کسی نے راہِ وفا کے بھرم کو توڑ دیا
ہزار بار کہانی میں میرے ہیرو نے
دعا کی ضرب سے دستِ ستم کو توڑ دیا
سلام اس کی صلیبوں بھری جوانی پر
وہ جس نے موت کے جاہ و حشم کو توڑ دیا
نکل پڑا میں تلاشِ یزید میں اک دن
اور احتجاج کے کالے علم کو توڑدیا
یہ انتہا ہے دماغِ خراب کی منصور
دھرم کو چھوڑ دیا اور صنم کو توڑ دیا
منصور آفاق
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔