ٹیگ کے محفوظات: ترانہ
خیرہ سرانہ شور مچائیں خیرہ سرانہ رقص کریں
ترانہ
میرا بدن لہو لہو
مرا وطن لہو لہو
مگر عظیم تر
یہ میری ارض پاک ہو گئی
اسی لہو سے
سرخرو
وطن کی خاک ہو گئی
مرا بدن لہو لہو
بجھا جو اک دیا یہاں
تو روشنی کے کارواں
رواں دواں رواں دواں
یہاں تلک کے ظلم کی
فصیل چاک ہو گئی
عظیم تر یہ ارض پاک ہو گئی
مرا بدن لہو لہو
غنیم کس گماں میں تھا
کہ اس نے وار کر دیا
اسے خبر نہ تھی ذرا
کہ جب بھی ہم بڑھے
تو پھر رکے نہیں
یہ سر اٹھے تو کٹ مرے
مگر جھکے نہیں
اسی ادا سے رزمگاہ تابناک ہو گئی
عظیم تر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ارض پاک ہو گئی
مرا بدن لہو لہو
مرا وطن لہو لہو
ہر ایک زخم فتح کا نشان ہے
وہی تو میری آبرو ہے آن ہے
جو زندگی وطن کی راہ میں ہلاک ہو گئی
عظیم تر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ارض پاک ہو گئی
ترانہ
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے ، کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اُٹھے گا۔ کچھ دور تو نالے جائیں گے