ٹیگ کے محفوظات: تباہی

پھروں ہوں چور زخمی اس کی تیغ کم نگاہی کا

دیوان سوم غزل 1102
کیا ہے عشق جب سے میں نے اس ترک سپاہی کا
پھروں ہوں چور زخمی اس کی تیغ کم نگاہی کا
اگر ہم قطعۂ شب سا لیے چہرہ چلے آئے
قیامت شور ہو گا حشر کے دن روسیاہی کا
ہوا ہے عارفان شہر کو عرفان بھی اوندھا
کہ ہر درویش ہے مارا ہوا شوق الٰہی کا
ہمیشہ التفات اس کا کسو کے بخت سے ہو گا
نہیں شرمندہ میں تو اس کے لطف گاہ گاہی کا
برنگ کہربائی شمع اس کا رنگ جھمکے ہے
دماغ سیر اس کو کب ہے میرے رنگ کاہی کا
بڑھیں گے عہد کے درویش اس سے اور کیا یارو
کیا ہے لڑکوں نے دینا انھوں کو تاج شاہی کا
خراب احوال کچھ بکتا پھرے ہے دیر و کعبے میں
سخن کیا معتبر ہے میر سے واہی تباہی کا
میر تقی میر

دائم مری گواہی مرا ایک ایک لفظ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 203
ہے وجہ کج کلاہی مرا ایک ایک لفظ
دائم مری گواہی مرا ایک ایک لفظ
اے حکمرانِ ملک خدا داد ، ظلم روک
تیرے لئے تباہی مرا ایک ایک لفظ
ہر چوک پر کھڑا ہے بڑے اعتماد سے
سچائی کا سپاہی مرا ایک ایک لفظ
رقصاں نئی شعاعیں مری چشمِ خواب میں
صبحوں کی خوش نگاہی مرا ایک ایک لفظ
لکھتا رہا ترے ہی قیصدے اے آفتاب
کرتا رہا ضیاہی مرا ایک ایک لفظ
تجھ سے ملا تو پھول بھی خوشبو بھی بن گیا
بادِ صبا تو تھا ہی مرا ایک ایک لفظ
تہذیبِ حسن باطنی مری غزل ہوئی
حیرت بھری صراحی مرا ایک ایک لفظ
منصور کی بھی بڑ یہی سرمد کا دھڑ یہی
تسلیم !خانقاہی مرا ایک ایک لفظ
منصور آفاق

کس کے آگے جا کے سر پھوڑوں الٰہی کیا کروں؟

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 24
وہ تو سنتا ہی نہیں میں داد خواہی کیا کروں؟
کس کے آگے جا کے سر پھوڑوں الٰہی کیا کروں؟
مجھ گدا کو دے نہ تکلیف حکومت اے ہوس!
چار دن کی زندگی میں بادشاہی کیا کروں؟
مجھ کو ساحل تک خدا پہنچائے گا اے ناخدا!
اپنی کشتی کی بیاں تجھ سے تباہی کیا کروں؟
وہ مرے اعمال روز و شب سے واقف ہے امیر
پیش خالق ادعائے بے گناہی کیا کروں؟
امیر مینائی