ٹیگ کے محفوظات: تال

بن گئے پربت روئی کے گالے، بھرگئے خون سے تال

کچھ مت پُوچھو وقت نے اب کے چلی ہے کیسی چال
بن گئے پربت روئی کے گالے، بھرگئے خون سے تال
کیسی بلندی، کیسی پستی، ایک ہے سب کا حال
سمجھے تھے آکاش جسے، نکلا وہ بھی پاتال
اب میں ہوں اور حدِّ نظر تک ویرانی کی دُھول
اُڑ گئی خوشبو، جَھڑگئے پتّے، رہ گئی خالی ڈال
قریہ قریہ مانگتے پھرنا شبنم کی اک بُوند
سورج کی پونجی ہی کیا ہے پیتل کا اک تھال
آنکھ سے آنسو ٹپکا، یا کوئی تارا ٹوٹا تھا
بستی بستی پھیل گیا کیوں آوازوں کا جال
اپنے ہی سایے کے پیچھے بھاگ رہا ہے کوئی
دشتِ وفا میں پڑ گیا شاید انسانوں کا کال
رات کی شہزادی پر جانے کیا اُفتاد پڑی
کانسی کا ہے طَوق گلے میں سر پر میلی شال
خوشبو کی لپٹیں دیتے ہیں دیکھو میرے ہاتھ
میں نے چھُو کر دیکھ لیے ہیں غم کے خدّو خال
سیپیاں چُنتے ساحل ساحل گھومیں لوگ، شکیبؔ
اشکوں کے موتی چُن کر ہم تو ہو گئے مالا مال
شکیب جلالی

مرا جواب بھی اپنے سوال میں رکّھا

ہر ایک چیز کو اُس نے خیال میں رکّھا
مرا جواب بھی اپنے سوال میں رکّھا
وہ پاس تھا تو یہ سب بھی عزیز تھے مجھ کو
وگرنہ کیا ہے بھلا ماہ و سال میں رکّھا
خلوصِ عشق تَو حسنِ عروج ہی پہ رہا
عروجِ حسن کو پھر کیوں زوال میں رکّھا
تری نظر کا مرے دل سے کھیل ہے سارا
حقیقتاً ہے نہ کچھ سُر نہ تال میں رکّھا
سنبھال سکتیں یہ کیا وسعتِ خیال مری
حقیقتوں کو بھی میں نے خیال میں رکّھا
عجیب حسنِ ارادت ہے تجھ سے ضامنؔ کو
ترا ہر ایک سخن نیک فال میں رکّھا
ضامن جعفری

پھر بنامِ فلک عرضِ احوال کے پھول کھِلنے لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
تشنہ لب شاخچوں پر نئے سال کے پھول کھِلنے لگے
پھر بنامِ فلک عرضِ احوال کے پھول کھِلنے لگے
اک ذرا سی فضائے چمن کے نکھرنے پہ بھی کیا سے کیا
جسمِ واماندگاں پر خدوخال کے پھول کھِلنے لگے
کھولنے کو، ضیا پاش کرنے کو پھر ظلمتوں کی گرہ
مٹھیوں میں دمکتے زر و مال کے پھول کھلنے لگے
پنگھٹوں کو رواں، آہوؤں کے گماں در گماں دشت میں
لڑکھڑاتی ہوئی بے اماں چال کے پھول کھِلنے لگے
دھند چھٹنے پہ مژدہ ہو، ترکش بہ آغوش صیّاد کو
ازسرِ نو فضا میں پر و بال کے پھول کھِلنے لگے
ہے اِدھر آرزوئے بقا اور اُدھر بہرِ زندہ دلاں
فصل در فصل تازہ بچھے جال کے پھول کھِلنے لگے
ہم نے سوچا تھا کچھ اور ماجد، مگر تارِ انفاس پر
اب کے تو اور بے ربط سُر تال کے پھول کھِلنے لگے
ماجد صدیقی

پہنچا ہے اُس کا ذکر ہر اک بُک سٹال پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
فن سے مرے کہ ہے جو فرازِ کمال پر
پہنچا ہے اُس کا ذکر ہر اک بُک سٹال پر
ہونٹوں پہ رقص میں وُہی رنگینی نگاہ
محفل جمی ہوئی کسی ٹیبل کی تال پر
شیشے کے اِک فریم میں کچھ نقش قید تھے
میری نظر لگی تھی کسی کے جمال پر
ساڑھی کی سبز ڈال میں لپٹی ہوئی بہار
کیا کچھ شباب تھا نہ سکوٹر کی چال پر
ہنستی تھی وہ تو شوخیِ خوں تھی کُچھ اس طرح
جگنو سا جیسے بلب دمکتا ہو گال پر
رکھا بٹن پہ ہاتھ تو گھنٹی بجی اُدھر
در کھُل کے بھنچ گیا ہے مگر کس سوال پر
میک اَپ اُتر گیا تو کھنڈر سی وہ رہ گئی
جیسے سحر کا چاند ہو ماجدؔ زوال پر
ماجد صدیقی

تال سے باہر کبھی ہے اور کبھی ہے تال میں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 37
بس یہی دشواریاں ہیں آدمی کی چال میں
تال سے باہر کبھی ہے اور کبھی ہے تال میں
اپنے فردا کو بدل سکتا ہوں ماضی کو نہیں
یعنی آدھا دخل ہے میرا مرے احوال میں
بُن رہا ہے حرف و ہندسہ سے جو تارِ عنکبوت
تُو کہیں پکڑا نہ جائے آپ اپنے جال میں
خود کلامی اور تنہائی میں کمرے کا سفر
کیا بتاؤں اک صدی کاٹی ہے میں نے سال میں
ہے تماشا بند آنکھوں میں اُبھرنا عکس کا
روشنی آئی کہاں سے خواب کی تمثال میں
آفتاب اقبال شمیم