ٹیگ کے محفوظات: بیوپاری

اوپگلے کیا سوچ کے تو نے جیون کی بازی ہاری ہے

اُس مَدھ ماتی سُندر چھب کی متوالی دُنیا ساری ہے
اوپگلے کیا سوچ کے تو نے جیون کی بازی ہاری ہے
جھیل نہیں اِندر کی سبھا ہے، پُھول نہیں چنچل پریاں ہیں
جنگل میں ایسی رُت کب تھی، یہ سب دھیان کی گُل کاری ہے
رُوپ محل کی چور گلی سے، دیکھوکس کو بُلاوا آئے
اک ہیروں کا سوداگر ہے اَور اِک من کا بیوپاری ہے
گھر سے اکیلا جو بھی نِکلا اس نے اپنی کھوج نہ پائی
چندرما کا ہاتھ پکڑلو، یہ رات بڑی اندھیاری ہے
کِس سے روئیں پیار کا دُکھڑا، کِس سے پائیں داد وفا کی
کچھ گونگے بہرے لوگوں کی، اس بستی میں سرداری ہے
شکیب جلالی

ساتھ نہ دے کیونکر اُس کا پٹواری بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
کھیت بھی اور حاصل ہے جسے سرداری بھی
ساتھ نہ دے کیونکر اُس کا پٹواری بھی
خرقہ پوش ہیں شہر کی جو جو شَہراہیں
دُور رہے اُن سے شہ کی اسواری بھی
جس گوشے میں چاہے حرص کا مال سجے
اُس جانب آ جاتے ہیں بیوپاری بھی
ماجد صدیقی

مانگ جن کی ہے میں اُن چیزوں کا بیوپاری نہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 104
نام کی خواہش مرے وجدان پر بھاری نہیں
مانگ جن کی ہے میں اُن چیزوں کا بیوپاری نہیں
سوچتا ہوں کس سے لکھواؤں سند پہچان کی
شہر کے شہرت نویسوں سے میری یاری نہیں
دے خداوندا مجھے بعدِ بصیرت کا سراغ
آنکھ کا یہ زخم گہرا ہے مگر کاری نہیں
شعرِ مشکل کی سماعت نا پسند آئے انہیں
اور آساں ہو تو کہتے ہیں کہ تہ داری نہیں
مشکلیں سہنے کا جینے میں سلیقہ آ گیا
اب تو مر جانے میں مجھ کو کوئی دشواری نہیں
خیر ہو اے یار! تیری دلبری کی خیر ہو
عاشقوں نے ہار کر بازی ابھی ہاری نہیں
آفتاب اقبال شمیم