بیساکھ آیا، آئی فسوں زائیوں کی رُت
آئی حسین کلیوں کی برنائیوں کی رُت!
گاؤں کے مرد و زن نے اٹھائیں درانتیاں
آئی سنہری کھیتیوں کی، لائیوں کی رُت
گندم کی فصل کاٹنے کے خوشگوار دن
محنت کشوں کی زمزمہ پیرائیوں کی رُت
خوشوں کے بکھرے بکھرے سے انباروں کا سماں
کھلواڑوں کے نگاروں کی رعنائیوں کی رُت
کھیتوں میں دھیمے قہقہوں کا موسمِ حسیں
رستوں پہ گونجتی ہوئی شہنائیوں کی رُت
دہقان کی اُمید کی بارآوری کا وقت
دنیا کے سوئے بخت کی انگڑائیوں کی رُت
مجید امجد