ٹیگ کے محفوظات: بہکتے

ہم کہ تصویر بنے بس تجھے تکتے جاویں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 66
دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں
ہم کہ تصویر بنے بس تجھے تکتے جاویں
چوب نم خوردہ کی مانند سلگتے رہے ہم
نہ تو بجھ پائیں نہ بھڑکیں نہ دہکتے جاویں
تیری بستی میں تیرا نام پتہ کیا پوچھا
لوگ حیران و پریشاں ہمیں تکتے جاویں
کیا کرے چارہ کوئی جب تیرے اندوہ نصیب
منہ سے کچھ بھی نہ کہیں اور سسکتے جاویں
کوئی نشے سے کوئی تشنہ لبی سے ساقی
تیری محفل میں سبھی لوگ بہکتے جاویں
مژدۂ وصل سے کچھ ہم ہی زخود رفتہ نہیں
اس کی آنکھوں میں بھی جگنو سے چمکتے جاویں
کبھی اس یارِ سمن بر کے سخن بھی سنیو
ایسا لگتا ہے کہ غنچے سے چٹکتے جاویں
ہم نوا سنجِ محبت ہیں ہر اک رُت میں فراز
وہ قفس ہو کہ گلستاں ہو، چہکتے جاویں
احمد فراز

اک ایک کو نہیں پھر غیرت سے دیکھ سکتے

دیوان سوم غزل 1278
دو دیدئہ تر اپنے جو یار کو ہیں تکتے
اک ایک کو نہیں پھر غیرت سے دیکھ سکتے
حرکت دلوں کی اپنے مذبوحی سی رہے ہے
اب وہ نہیں کہ دھڑ دھڑ رہتے ہیں دل دھڑکتے
پلکوں کی اس کی جنبش جاتی نہیں نظر سے
کانٹے سے اپنے دل میں رہتے ہیں کچھ کھٹکتے
ہوتا تھا گاہ گاہے محسوس درد آگے
اب دل جگر ہمارے پھوڑے سے ہیں لپکتے
پڑتی ہیں ایدھر اودھر وے سرخ آنکھیں ایسی
دو ترک مست جیسے ہوں راہ میں بہکتے
شعلوں کے ڈانک گویا لعلوں تلے دھرے ہیں
چہروں کے رنگ ہم نے دیکھے ہیں کیا جھمکتے
یاں بات راہ کی تو سنتا نہیں ہے کوئی
جاتے ہیں ہم جرس سے اس قافلے میں بکتے
جاگہ سے لے گئے ہیں نازاں جب آگئے ہیں
نوباوگان خوبی جوں شاخ گل لچکتے
اس حسن سے کہاں ہے غلطانی موتیوں کی
جس خوبصورتی سے میر اشک ہیں ڈھلکتے
میر تقی میر