ٹیگ کے محفوظات: بہائو

ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگائو

دیوان سوم غزل 1237
سب کھا گئے جگر تری پلکوں کے کاو کاو
ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگائو
آنکھوں کا جھڑ برسنے سے ہتھیا کے کم نہیں
پل مارتے ہے پیش نظر ہاتھی کا ڈبائو
کشتی چشم ڈوبی رہی بحر اشک میں
آئی نہ پار ہوتی نظر عاشقوں کی نائو
سینے کے اپنے زخم سے خاطر ہو جمع کیا
دل ہی کی اور پاتے ہیں سب لوہو کا بہائو
بیتابی دل افعی خامہ نے کیا لکھی
کاغذ کو شکل مار سراسر ہے پیچ تائو
ہرچند جانیں جاتی ہیں پر تیغ جور سے
تم کو ہمارے سر کی سوں تم ہاتھ مت اٹھائو
سر نیچے ہو تو پاؤں ترا دابیں ہم کبھی
دبتا وہی ہے جس کے تئیں کچھ بھی ہو دبائو
چاک قفس سے آنکھیں لگیں کب تلک رہیں
اک برگ گل نسیم ہماری طرف بھی لائو
غیرت کا عشق کی ہے طریقہ ہی کچھ جدا
اس کی گلی کی خضرؑ کو بھی راہ مت بتائو
ظاہر ہیں دیکھنے سے گنہ کیونکہ تیرے سب
چھپتے ہیں میر کوئی دلوں کے کہیں لگائو
میر تقی میر

ٹک آپ بھی تو آیئے یاں زور بائو ہے

دیوان اول غزل 569
دل کی طرف کچھ آہ سے دل کا لگائو ہے
ٹک آپ بھی تو آیئے یاں زور بائو ہے
اٹھتا نہیں ہے ہاتھ ترا تیغ جور سے
ناحق کشی کہاں تئیں یہ کیا سبھائو ہے
باغ نظر ہے چشم کے منظر کا سب جہاں
ٹک ٹھہرو یاں تو جانو کہ کیسا دکھائو ہے
تقریب ہم نے ڈالی ہے اس سے جوئے کی اب
جو بن پڑے ہے ٹک تو ہمارا ہی دائو ہے
ٹپکا کرے ہے آنکھ سے لوہو ہی روز و شب
چہرے پہ میرے چشم ہے یا کوئی گھائو ہے
ضبط سرشک خونیں سے جی کیونکے شاد ہو
اب دل کی طرف لوہو کا سارا بہائو ہے
اب سب کے روزگار کی صورت بگڑ گئی
لاکھوں میں ایک دو کا کہیں کچھ بنائو ہے
چھاتی کے میری سارے نمودار ہیں یہ زخم
پردہ رہا ہے کون سا اب کیا چھپائو ہے
عاشق کہیں جو ہو گے تو جانوگے قدر میر
اب تو کسی کے چاہنے کا تم کو چائو ہے
میر تقی میر