ٹیگ کے محفوظات: بھاگ

جاگ مسافر اب تو جاگ

ختم ہوا تاروں کا راگ
جاگ مسافر اب تو جاگ
دھوپ کی جلتی تانوں سے
دشتِ فلک میں لگ گئی آگ
دن کا سنہرا نغمہ سن کر
ابلقِ شب نے موڑی باگ
کلیاں جھلسی جاتی ہیں
سورج پھینک رہا ہے آگ
یہ نگری اندھیاری ہے
اس نگری سے جلدی بھاگ
ناصر کاظمی

وہ سوراخوں سے کالے ناگ نکلے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 182
دھرم کی بانسری سے راگ نکلے
وہ سوراخوں سے کالے ناگ نکلے
رکھو دیر و حرم کو اب مقفّل
کئی پاگل یہاں سے بھاگ نکلے
وہ گنگا جل ہو یا آبِ زمزم
یہ وہ پانی ہیں جن سے آگ نکلے
خدا سے لے لیا جنت کا وعدہ
یہ زاہد تو بڑے ہی گھاگ نکلے
ہے آخر آدمیت بھی کوئی شے
ترے دربان تو بُل ڈاگ نکلے
یہ کیا انداز ہے اے نکتہ چینو
کوئی تنقید تو بے لاگ نکلے
پلایا تھا ہمیں امرت کسی نے
مگر منہ سے لہو کے جھاگ نکلے
جون ایلیا

اس لیے دیکھ رہا ہے کہ مجھے آگ لگے

دیوان دوم غزل 991
غیر کو دیکھے ہے گرمی سے نہ کچھ لاگ لگے
اس لیے دیکھ رہا ہے کہ مجھے آگ لگے
آنکھ ہر ایک کی دوڑے ہے کفک پر تیرے
پائوں سے لگ کے ترے مہندی کو کچھ بھاگ لگے
ہو نہ دیوانہ جو اس گوہر خوش آب کا تو
لب دریا کے تئیں کیوں رہیں یوں جھاگ لگے
اب تو ان گیسوئوں کی یاد میں میں محو ہوا
گو قیامت کو مرے منھ سے ہوں دو ناگ لگے
لڑکے دلی کے ترے ہاتھ میں کب آئے میر
پیچھے ایک ایک کے سو سو پھریں ہیں ڈاگ لگے
میر تقی میر

کبھی دن بیتیں بیراگ بھرے کبھی رت آئے انوراگ بھری

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 218
کوئی چٹّھی لکھو رنگ بھری کوئی مٹھی کھولو پھاگ بھری
کبھی دن بیتیں بیراگ بھرے کبھی رت آئے انوراگ بھری
جہاں خاک بچھونا رات ملے مجھے چاند کی صورت ساتھ ملے
وہی دکھیارن وہی بنجارن وہی روپ متی وہی بھاگ بھری
پل بھر کو اگر میں سوجاؤں تو سارا زہر کا ہوجاؤں
ترا کالا جنگل ناگ بھرا مری جلتی آنکھیں جاگ بھری
سنو اپنا اپنا کام کریں سُرتال پہ کیوں الزام دھریں
میاں اپنی اپنی بانسریا کوئی راگ بھری کوئی آگ بھری
عرفان صدیقی

روگی انت وِراگ دا

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 16
بَجھیاں راتاں جاگدا
روگی انت وِراگ دا
دل بَھیڑا انبھول سی
جگ نوں رہیا تیاگدا
کوئی تے رنگ سی ویکھنا
دُدھ نوں لگی جاگ دا
اُنج وی سی اوہ لہر جیہی
سماں سی پہل سہاگ دا
اکو سیدھ لکیر جیہی
منتر کالے ناگ دا
کیہ قصّہ لے بیٹھدائیں
ماجدُ اپنے بھاگ دا
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)