ٹیگ کے محفوظات: بھالے

وقت کی امانت ہیں قیمَتی حوالے ہیں

طاقچوں کی کالَک ہے کھڑکیوں کے جالے ہیں
وقت کی امانت ہیں قیمَتی حوالے ہیں
زَخم وا نہیں کرتے تا نہ پُوچھ لے کوئی
دل کہاں گیا صاحب یہ تَو صِرف چھالے ہیں
پھول ہَوں کہ پتّھر ہَوں اب تو بس یہ عالَم ہے
جو بھی آئے آنے دو سب ہی دیکھے بھالے ہیں
کہہ رہے ہیں دیوانے دَور آئے گا اچّھا
سُن رہے ہیں ہم جب سے ہوش کچھ سنبھالے ہیں
زَخمِ دل کے مَرہَم کا نِرخ بڑھ گیا صاحب
یہ خَبَر ہے گردش میں آپ آنے والے ہیں
گردشِ زمانہ کیوں فکرمند ہے ضامنؔ
اس نے سُن لِیا ہو گا ہَم نے پَر نِکالے ہیں
ضامن جعفری

جی میں ہیں کیسے کیسے پھول

ہنستے گاتے روتے پھول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول
اور بہت کیا کرنے ہیں
کافی ہیں یہ تھوڑے پھول
وقت کی پھلواری میں نہیں
دامن میں ہیں اَیسے پھول
اس دھرتی کی رَونق ہیں
میرے کانٹے تیرے پھول
کیسے اندھے ہیں وہ ہاتھ
جن ہاتھوں نے توڑے پھول
اُن پیاسوں پر میرا سلام
جن کی خاک سے نکلے پھول
ایک ہری کونپل کے لیے
میں نے چھوڑے کتنے پھول
اُونچے اُونچے لمبے پیڑ
ساوے پتے پیلے پھول
مٹی ہی سے نکلے تھے
مٹی ہو گئے سارے پھول
مٹی کی خوشبو لینے
نیل گگن سے اُترے پھول
چادر اوڑھ کے شبنم کی
نکلے آنکھیں ملتے پھول
شام ہوئی اب گلیوں میں
دیکھو چلتے پھرتے پھول
سونا جسم سفید قمیص
گورے ہاتھ سنہرے پھول
کچی عمریں کچے رنگ
ہنس مکھ بھولے بھالے پھول
آنکھ آنکھ میں بھیگی نیند
ہونٹ ہونٹ سے جھڑتے پھول
گورے گورے ننگے پیر
جھلمل جھلمل کرتے پھول
جیسا بدن ویسا ہی لباس
جیسی مٹی وَیسے پھول
مہک اُٹھی پھر دل کی کتاب
یاد آئے یہ کب کے پھول
شام کے تارے تو ہی بتا
آج کدھر سے گزرے پھول
کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول
دھیان میں پھرتے ہیں ناصر
اچھی آنکھوں والے پھول
ناصر کاظمی

یاد سے محو ہوئے چاہنے والے کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
پڑ گئے ذہن پہ نسیان کے تالے کیا کیا
یاد سے محو ہوئے چاہنے والے کیا کیا
رسیاں اُن کے لئے جیسے فلک بھیجے گا
ہاتھ لہراتے رہے ڈوبنے والے کیا کیا
کب کوئی سانپ دبا لے، کوئی شاہیں آلے
چونچ پر پڑنے لگے خوف کے چھالے کیا کیا
جانے والے، ہیں بس اتنے سا پتہ چھوڑ گئے
دیکھ لے بند کواڑوں پہ ہیں جالے کیا کیا
چاہتیں وقفِ غرض، نیّتیں نفرت والی
تخت ہم نے بھی وراثت میں سنبھالے کیا کیا
کب سے شہباز ہیں جو، محو اسی فکر میں ہیں
چیونٹیوں نے بھی یہاں، پَر ہیں نکالے کیا کیا
سَر اُٹھانے کی ہوئی جب بھی جسارت ہم سے
ہم پہ ماجدؔ نہ تنے طیش کے بھالے کیا کیا
ماجد صدیقی

مل بیٹھے ہیں جھیل کنارے چندا، رات اور مَیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
اپنی اپنی دھن میں نکلے چندا، رات اور مَیں
مل بیٹھے ہیں جھیل کنارے چندا، رات اور مَیں
اپنے ہاتھوں سورج کھو کر، سو گئے کیونکر لوگ
اتنی ساری بات نہ سمجھے چندا، رات اور مَیں
ایک ذرا سی پَو پھٹنے پر، باہم غیر ہوئے
ہم آپس کے دیکھے بھالے چندا، رات اور مَیں
اک دوجے سے پُختہ کرنے، کچھ لمحوں کا ساتھ
زینہ زینہ خاک پہ اُترے چندا، رات اور مَیں
تاب نظر کی، آنکھ کا کاجل اور سخن کا نُور
ماجدؔ چہروں چہروں لائے چندا، رات اور مَیں
ماجد صدیقی

کنج ورہیاں دے بھٹھاں وچ، تن گالے نیں

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 78
کنج دسیے، کنج پَیریں پے گئے چھالے نیں
کنج ورہیاں دے بھٹھاں وچ، تن گالے نیں
جِت ول ٹرئیے، قدماں دی اگوائی نوں
ککر چھاپے، ٹوئے، کھائیاں نالے نیں
خوف دی اِل توں، ککڑیاں وانگوں اسّاں وی
تاہنگاں چوچے، پنکھاں ہیٹھ سمہالے نیں
بھاہ لگے چٹیائی، چِٹیاں دنداں دی
کھِڑ کھِڑ ہسدے یار وی، من دے کالے نیں
کجدے رہندے آں، وچ پیار اُچھاڑاں دے
نئیں تے سجن اُنج تے، ویکھے بھالے نیں
پل پل سانوں، سجرے گھیرے پان پئے
جو منظر وی ماجدُ، آل دوالے نیں
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)