ٹیگ کے محفوظات: بچھاوے

ولے دل شرط ہے جو تاب لاوے

دیوان پنجم غزل 1731
بسان برق وہ جھمکے دکھاوے
ولے دل شرط ہے جو تاب لاوے
اڑاتا گڈی وہ باہر نہ آوے
مبادا مجھ کو بھی گڈا بناوے
صبا سے میں جو لگ چل کر گیا واں
ہوا کھاوے کہا آنے نہ پاوے
نزاکت سے بہت ہے کم دماغی
رکھے پگڑی پہ گل تیوری چڑھاوے
بزن گاہ اس کشندے کی گلی ہے
وہی جاوے جو لوہو میں نہاوے
نہ پوچھو فرش رہ کیا ہووے اس کا
جو اہل دل ہو تو آنکھیں بچھاوے
بلا مغرور ہے وہ آتشیں خو
بہت منت کرو تو جی جلاوے
پڑا تڑپا کیا میں دور پہروں
عجب کیا ہے جو پاس اپنے بلاوے
بتان دیر سے ایسی نہیں لاگ
خدا ہی ہو تو کعبے میر جاوے
میر تقی میر

جیسے چراغ کوئی مہتاب میں جلاوے

دیوان دوم غزل 998
ویسا ہے یہ جو یوسف شب تیرے ہوتے آوے
جیسے چراغ کوئی مہتاب میں جلاوے
کیا رفتگی سے میری تم گفتگو کرو ہو
کھویا گیا نہیں میں ایسا جو کوئی پاوے
چھاتی کے داغ یکسر آنکھوں سے کھل رہے ہیں
دیکھیں ابھی محبت کیا کیا ہمیں دکھاوے
ہیں پائوں اس کے نازک گل برگ سے بجا ہے
عاشق جو رہگذر میں آنکھوں کے تیں بچھاوے
یوں خاک منھ پہ مل کر کب تک پھرا کروں میں
یارب زمیں پھٹے تو یہ روسیہ سماوے
اے کاش قصہ میرا ہر فرد کو سنا دیں
تا دل کسو سے اپنا کوئی نہ یاں لگاوے
ترک بتاں کا مجھ سے لیتے ہیں قول یوں ہی
کیا ان سے ہاتھ اٹھائوں گو اس میں جان جاوے
عاشق کو مر گئے ہی بنتی ہے عاشقی میں
کیا جان جس کی خاطر شرمندگی اٹھاوے
جی میں بگڑ رہا ہے تب میر چپ ہے بیٹھا
چھیڑو ابھی تو کیا کیا باتیں بنا کے لاوے
میر تقی میر