وہ پتھر پہ کِھلتے ہُوئے خُوبصورت بنفشے کا ننھا سا ایک پُھول بھی
جس کی سانسوں میں جنگل کی وحشی ہوائیں سمائی ہُوئی تھیں
اُس کے بے ساختہ حُسن کو دیکھ کر
اک مُسافر بڑے پیار سے توڑ کر،اپنے گھر لے گیا
اور پھر
اپنے دیوان خانے میں رکھے ہُوئے کانچ کے خُوبصورت سے گُل دان میں
اُس کو ایسے سجایا
کہ ہر آنے والے کی پہلی نظر اُس پہ پڑنے لگی
دادوتحسین کی بارش میں وہ بھیگتا ہی گیا
کوئی اُس سے کہے
گولڈ لیف اور شنبیل کی نرم شہری مہک سے
بنفشے کے ننھے شگوفے کا دَم گُھٹ رہا ہے
وہ جنگل کی تازہ ہَوا کو ترسنے لگاہے
پروین شاکر