ٹیگ کے محفوظات: بندھاتے

کس کس ناز سے وے آتے پر آنکھ نہ ان سے ملاتے ہم

دیوان چہارم غزل 1443
صبر بہت تھا ایک سمیں میں جا سے اپنی نہ جاتے ہم
کس کس ناز سے وے آتے پر آنکھ نہ ان سے ملاتے ہم
کعبے سے کر نذر اٹھے سو خرج راہ اے وائے ہوئے
ورنہ صنم خانے میں جا زنار گلے سے بندھاتے ہم
ہاتھی مست بھی آوے چلا تو اس سے منھ کو پھیر نہ لیں
پھرتے ہیں سرمست محبت مے ناخوردہ ماتے ہم
ہائے جوانی وہ نہ گلے لگتا تو خشم عشقی سے
نعل جڑی جاتی چھاتی پر گل ہاتھوں پر کھاتے ہم
عشق تو کارخوب ہے لیکن میر کھنچے ہے رنج بہت
کاش کے عالم ہستی میں بے عشق و محبت آتے ہم
میر تقی میر

پھر برسوں تئیں پیارے جی سے نہیں جاتے ہو

دیوان دوم غزل 918
برسوں میں کبھو ایدھر تم ناز سے آتے ہو
پھر برسوں تئیں پیارے جی سے نہیں جاتے ہو
آتے ہو کبھو یاں تو ہم لطف نہیں پاتے
سو آفتیں لاتے ہو سو فتنے اٹھاتے ہو
رہتے ہو تم آنکھوں میں پھرتے ہو تمھیں دل میں
مدت سے اگرچہ یاں آتے ہو نہ جاتے ہو
ایسی ہی زباں ہے تو کیا عہدہ برآ ہوں گے
ہم ایک نہیں کہتے تم لاکھ سناتے ہو
خوش کرنے سے ٹک ایسے ناخوش ہی رکھا کریے
ہنستے ہو گھڑی بھر تو پہروں ہی رلاتے ہو
اک خلق تلاشی ہے تم ہاتھ نہیں لگتے
لڑکے تو ہو پر سب کو ٹالے ہی بتاتے ہو
مدت سے تمھارا کب ایدھر کو تہ دل ہے
کاہے کو تصنع سے یہ باتیں بناتے ہو
کچھ عزت کفر آخر اے دیر کے باشندو
مجھ سہل سے کو کیوں تم زنار بندھاتے ہو
آوارہ اسے پھرتے پھر برسوں گذرتے ہیں
تم جس کسو کو اپنے ٹک پاس بٹھاتے ہو
دل کھول کے مل چلیے جو میر سے ملنا ہے
آنکھیں بھی دکھاتے ہو پھر منھ بھی چھپاتے ہو
میر تقی میر