ٹیگ کے محفوظات: بنتی

مگر یہ بات کہنے کی نہیں ہے

دُوئی اُس سے ذرا سی بھی نہیں ہے
مگر یہ بات کہنے کی نہیں ہے
بہت دیکھا ہے پھولوں کی ہنسی کو
بہت اچّھی ہے پر ویسی نہیں ہے
دیا ہے درد کو پیراہنِ لفظ
غزل بہرِ غزل لکّھی نہیں ہے
سکوں کیوں مل رہا ہے تم سے مل کر
علامت یہ کوئی اچّھی نہیں ہے
غلط ہے چارہ گر تشخیص تیری
محبّت ہو گئی ہے کی نہیں ہے
کرشمہ یہ بھی تیرے حسن کا ہے
جنون و ہوش میں بنتی نہیں ہے
غمِ دل ایسا راس آیا ہے ضامنؔ
کہ زخموں کی ہنسی رُکتی نہیں ہے
ضامن جعفری

محبّت ہو گئی ہے کی نہیں ہے

حضور اِس میں خَطا میری نہیں ہے
محبّت ہو گئی ہے کی نہیں ہے
طبیعت اب کہیِں لگتی نہیں ہے
کوئی محفل وہ محفل ہی نہیں ہے
بُرا مَت ماننا باتوں کا میری
کوئی اِن میں لگی لپٹی نہیں ہے
گذارا کر رہا ہُوں اِس سے لیکن
زمانے سے مری بَنتی نہیں ہے
مجھے بھاتا نہیں آئینہ بالکل
مروّت تو ذرا سی بھی نہیں ہے
میں دِل کی بات کہہ دُوں اُن سے ضامنؔ
مگر وہ بات کہنے کی نہیں ہے
ضامن جعفری