ٹیگ کے محفوظات: بناتے

رونق گلستاں میں نہ آئی کمی پھول آتے رہے پھول جاتے رہے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 143
فصلِ گلشن وہی فصلِ گلشن رہی لاکھ گلچیں ستم روز ڈھاتے رہے
رونق گلستاں میں نہ آئی کمی پھول آتے رہے پھول جاتے رہے
یوں نہ اہلِ محبت کو برباد کر ختم ہو جائیں گی حسن کی منتیں
کون پھر تیرے قدموں پہ رکھے گا سر ہم اگر تیرے ہاتھوں سے جاتے رہے
جرأتِ عشقِ گلشن ذرا دیکھئے سر پہ دیکھی بلا اور پرو نہ کی
برق ادھر آسماں پر چمکتی رہی ہم ادھر آشیانہ بناتے رہے
اف پسِ قتل وہ عالمِ بے کسی کوئی مصروفِ ماتم نہ گور و کفن
لاش جب تک مری رہگزر میں رہی راستہ چھوڑ کر لوگ جاتے رہے
ہجر کی رات ہے مانگئے یہ دعا ابر چھا جائے اندازۂ شب نہ ہو
اے قمر صبح دشوار ہو جائے گی یہ ستارے اگر جگمگاتے رہے
قمر جلالوی

بوسۂ کنج لب سے پھر بھی ذائقے اپنے بناتے تھے

دیوان پنجم غزل 1753
ہائے جوانی وصل میں اس کے کیا کیا لذت پاتے تھے
بوسۂ کنج لب سے پھر بھی ذائقے اپنے بناتے تھے
کیا کیا تم نے فریب کیے ہیں سادگی میں دل لینے کو
ٹیڑھی کرکے کلاہ آتے تھے مے ناخوردہ ماتے تھے
ہائے جدائی ایک ہی جاگہ مار کے ہم کو توڑ رکھا
وے دن یاد آتے ہیں اب جب ان کے آتے جاتے تھے
غیروں کی تم سنتے رہے سو غیرت سے ہم سہتے رہے
وے تو تم کو لگا جاتے تھے تم آہم کو جلاتے تھے
رنج و الم غم عشق ہی کے اعجاز سے کھنچتے تھے ورنہ
حوصلہ کتنا اپنا جس میں یہ آزار سماتے تھے
وے دن کیسے سالتے ہیں جو آکر سوتے پاتے کبھو
آنکھوں سے ہم سہلا سہلا تلوے اس کو جگاتے تھے
چاہت روگ برا ہے جی کا میر اس سے پرہیز بھلا
اگلے لوگ سنا ہے ہم نے دل نہ کسو سے لگاتے تھے
میر تقی میر

چکر مارو جیسے بگولا خاک اڑاتے آتے رہو

دیوان پنجم غزل 1706
عاشق ہو تو اپنے تئیں دیوانہ سب میں جاتے رہو
چکر مارو جیسے بگولا خاک اڑاتے آتے رہو
دوستی جس کو لوگ کہیں ہیں جان سے اس کو خصومت ہے
ہوجاوے جو تم کو کسی سے تا مقدور چھپاتے رہو
دل لگنے کی چوٹ بری ہے اس صدمے سے خدا حافظ
بارے سعی و کشش کوشش سے جی کو اپنے بچاتے رہو
آئی بہار جنوں ہو مبارک عشق اللہ ہمارے لیے
نعل جڑے سینوں پہ پھرو تم داغ سروں پہ جلاتے رہو
شاعر ہو مت چپکے رہو اب چپ میں جانیں جاتی ہیں
بات کرو ابیات پڑھو کچھ بیتیں ہم کو بتاتے رہو
ابر سیہ قبلے سے آیا تم بھی شیخو پاس کرو
تخفیفے ٹک لٹ پٹے باندھو ساختہ ہی مدھ ماتے رہو
کیا جانے وہ مائل ہووے کب ملنے کا تم سے میر
قبلہ و کعبہ اس کی جانب اکثر آتے جاتے رہو
میر تقی میر

آنا یک سو کب دیکھو ہو ایدھر آتے جاتے تم

دیوان پنجم غزل 1677
ڈول لگائے بہتیرے پر ڈھب پہ کبھو نہیں آتے تم
آنا یک سو کب دیکھو ہو ایدھر آتے جاتے تم
ہر صورت کو دیکھ رہو ہو ہر کوچے کو جھانکو ہو
آگے عشق کیا ہوتا تو پھرتے جی نہ کھپاتے تم
چاہت آفت الفت کلفت مہر و وفا و رنج وبلا
عشق ہی کے سب نام ہیں یہ دل کاش کہیں نہ لگاتے تم
شائق ہو مرغان قفس کے آئے گھر صیادوں کے
پھول اک دو تسکین کو ان کی کاش چمن سے لاتے تم
دونوں طرف سے کشش رہتی تھی نیا نیا تھا عشق اپنا
دھوپ میں آتے داغ ہوئے تو گرمی سے گل کھاتے تم
کیدھر اب وہ یک رنگی جو دیکھ نہ سکتے دل تنگی
رکتے پاتے ٹک جو ہمیں تو دیر تلک گھبراتے تم
کیا کیا شکلیں محبوبوں کی پردئہ غیب سے نکلی ہیں
منصف ہو ٹک اے نقاشاں ایسے چہرے بناتے تم
شاید شب مستی میں تمھاری گرم ہوئی تھیں آنکھیں کہیں
پیش از صبح جو آئے ہو تو آئے راتے ماتے تم
کب تک یہ دزدیدہ نگاہیں عمداً آنکھیں جھکا لینا
دلبر ہوتے فی الواقع تو آنکھیں یوں نہ چھپاتے تم
بعد نماز دعائیں کیں سو میر فقیر ہوئے تم تو
ایسی مناجاتوں سے آگے کاشکے ہاتھ اٹھاتے تم
میر تقی میر

پھر برسوں تئیں پیارے جی سے نہیں جاتے ہو

دیوان دوم غزل 918
برسوں میں کبھو ایدھر تم ناز سے آتے ہو
پھر برسوں تئیں پیارے جی سے نہیں جاتے ہو
آتے ہو کبھو یاں تو ہم لطف نہیں پاتے
سو آفتیں لاتے ہو سو فتنے اٹھاتے ہو
رہتے ہو تم آنکھوں میں پھرتے ہو تمھیں دل میں
مدت سے اگرچہ یاں آتے ہو نہ جاتے ہو
ایسی ہی زباں ہے تو کیا عہدہ برآ ہوں گے
ہم ایک نہیں کہتے تم لاکھ سناتے ہو
خوش کرنے سے ٹک ایسے ناخوش ہی رکھا کریے
ہنستے ہو گھڑی بھر تو پہروں ہی رلاتے ہو
اک خلق تلاشی ہے تم ہاتھ نہیں لگتے
لڑکے تو ہو پر سب کو ٹالے ہی بتاتے ہو
مدت سے تمھارا کب ایدھر کو تہ دل ہے
کاہے کو تصنع سے یہ باتیں بناتے ہو
کچھ عزت کفر آخر اے دیر کے باشندو
مجھ سہل سے کو کیوں تم زنار بندھاتے ہو
آوارہ اسے پھرتے پھر برسوں گذرتے ہیں
تم جس کسو کو اپنے ٹک پاس بٹھاتے ہو
دل کھول کے مل چلیے جو میر سے ملنا ہے
آنکھیں بھی دکھاتے ہو پھر منھ بھی چھپاتے ہو
میر تقی میر

بہت اس طرف کو تو جاتے ہیں لوگ

دیوان دوم غزل 849
رہ مرگ سے کیوں ڈراتے ہیں لوگ
بہت اس طرف کو تو جاتے ہیں لوگ
مظاہر سب اس کے ہیں ظاہر ہے وہ
تکلف ہے یاں جو چھپاتے ہیں لوگ
عجب کی جگہ ہے کہ اس کی جگہ
ہمارے تئیں ہی بتاتے ہیں لوگ
رہے ہم تو کھوئے گئے سے سدا
کبھو آپ میں ہم کو پاتے ہیں لوگ
اس ابرو کماں پر جو قرباں ہیں ہم
ہمیں کو نشانہ بناتے ہیں لوگ
نہ سویا کوئی شور شب سے مرے
قیامت اذیت اٹھاتے ہیں لوگ
ان آنکھوں کے بیمار ہیں میر ہم
بجا دیکھنے ہم کو آتے ہیں لوگ
میر تقی میر

میں لوٹ کے آؤں گا وہ جاتے ہوئے کہتا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 23
اتنا تو تعلق کو نبھاتے ہوئے کہتا
میں لوٹ کے آؤں گا وہ جاتے ہوئے کہتا
پہچانو مجھے، میں وہی سورج ہوں تمہارا
کیسے بھلا لوگوں کو جگاتے ہوئے کہتا
یہ صرف پرندوں کے بسیرے کے لیے ہے
آنگن میں کوئی پیڑ لگاتے ہوئے کہتا
ہر شخص مرے ساتھ ’’انا الحق‘‘ سرِ منزل
آواز سے آواز ملاتے ہوئے کہتا
اک موجِ مسلسل کی طرح نقش ہیں میرے
پتھر پہ میں اشکال بناتے ہوئے کہتا
اتنا بھی بہت تھا مری مایوس نظر کو
وہ دور سے کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتا
یہ تیرے عطا کردہ تحائف ہیں میں کیسے
تفصیل مصائب کی بتاتے ہوئے کہتا
موسم کے علاوہ بھی ہو موجوں میں روانی
دریا میں کوئی نظم بہاتے ہوئے کہتا
عادت ہے چراغ اپنے بجھانے کی ہوا کو
کیا اس سے کوئی شمع جلاتے ہوئے کہتا
میں اپنی محبت کا فسانہ اسے منصور
محفل میں کہاں ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا
منصور آفاق

زندگی کی ہنسی اڑاتے ہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 122
بات پر اپنی ہم جب آتے ہیں
زندگی کی ہنسی اڑاتے ہیں
شب غم کا کوئی سوال نہیں
نیند آئے تو سو بھی جاتے ہیں
جانتے ہیں مآل غم پھر بھی
لوگ کیا کیا فریب کھاتے ہیں
راستہ بھولنا تو ہے اک بات
راہرو خود کو بھول جاتے ہیں
بات کو سوچتے نہیں باقیؔ
لوگ جب داستاں بناتے ہیں
باقی صدیقی