ٹیگ کے محفوظات: برسائیں

بے ملاقات ملاقاتیں ہوں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 36
تجھ سے تنہائیوں میں باتیں ہوں
بے ملاقات ملاقاتیں ہوں
دل میں چاہت ہو بہت جینے کی
لب پہ مرنے کی منا جاتیں ہوں
رُخ تو بدلا ہے، مگر کیا معلوم!
راہِ دیگر میں نئی گھاتیں ہوں
ہے یہ ایسی ہی لڑائی جس میں
کبھی جیتیں ہوں کبھی باتیں ہوں
ہو فقیروں کو تونگر کر دیں
حسن کے نام پہ خیراتیں ہوں
دن کھلیں تازہ گلابوں جیسے
مے سے مہکائی ہوئی راتیں ہوں
جن سے صحرا بھی ہرے ہو جائیں
اس قدر ٹوٹ کے برسائیں ہوں
آفتاب اقبال شمیم

وہ باد صبا کہلائیں تو کیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 74
ہم صرصریں مرجھانے لگے
وہ باد صبا کہلائیں تو کیا
جب پوچھنے والا کوئی نہیں
زندہ ہیں تو کیا مر جائیں تو کیا
پیروں میں کوئی زنجیر نہیں
ہم رقص جنوں فرمائیں تو کیا
جو بادل آنگن چھوڑ گئے
جنگل میں بھرن برسائیں تو کیا
عرفان صدیقی