ٹیگ کے محفوظات: برتن

ظلم عظیم… یار کے دامن پہ ایسا داغ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 205
اتنی جمیل صبحِ شگفتن پہ ایسا داغ
ظلم عظیم… یار کے دامن پہ ایسا داغ
توبہ یہ وارداتِ فلسطین، کیا کہوں
اس عہدِ با شعور کے جوبن پہ ایسا داغ
ابھرا ہے آئینہ سے جو تیرے سلوک پر
لگتا ہے چشم مہر میں پھاگن پہ ایسا داغ
ایسا تو کچھ نہیں مرے دل کے مکان میں
کیسے لگا ہے دستِ نقب زن پہ ایسا داغ
حیرت ہے بارشوں کے مسلسل فروغ میں
رہ جائے آنسوئوں بھرے ساون پہ ایسا داغ
لگتا ہے انتظار کے چپکے ہیں خدو خال
دیکھا نہیں کبھی کسی چلمن پہ ایسا داغ
جس میں دھڑکتے لمس دکھائی دیں دور سے
اس نے بنا دیا میری گردن پہ ایسا داغ
ہونٹوں کے یہ نشان مٹا دو زبان سے
اچھا نہیں ہے دودھ کے برتن پہ ایسا داغ
جیسے پڑا ہوا ہے لہو میرا روڈ پر
کیسے لگا ہے رات کے مدفن پہ ایسا داغ
جس میں مجھے اترنا پڑے اپنی سطح سے
کیسے لگاؤں دوستو دشمن پہ ایسا داغ
یہ کیا پرو دیا ہے پرندے کو شاخ میں
زیتون کے سفید سلوگن پہ ایسا داغ
بعد از بہار دیکھا ہے میں نے بغور دل
پہلے نہ تھا صحیفۂ گلشن پہ ایسا داغ
اب تو تمام شہر ہے نیلا پڑا ہوا
پہلے تھا صرف چہرئہ سوسن پہ ایسا داغ
شاید ہے بد دعا کسی مجذوب لمس کی
منصور میرے سینۂ روشن پہ ایسا داغ
منصور آفاق

میرے کاہن عینک اور کتاب

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 131
غیب کا مدفن عینک اور کتاب
میرے کاہن عینک اور کتاب
ایک بہکتے حرف کے پہلو میں
رکھ دی فوراً عینک اور کتاب
ٹیرس پر تنہائی کی رم جھم
بھیگا ساون عینک اور کتاب
میر و غالب پھر مہمان ہوئے
چائے کے برتن عینک اور کتاب
یاد کی لائبریری زندہ باد
اپنا جیون عینک اور کتاب
برف بھری تنہائی میں منصور
یار کا درشن عینک اور کتاب
منصور آفاق

میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 103
اس نے پہلے مارشل لاء میرے آنگن میں رکھا
میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا
صحن میں پھیلی ہوئی ہے گوشت جلنے کی سڑاند
جیسے سینے میں نہیں کچھ اس نے اوون میں رکھا
جب سوئمنگ پول کے شفاف پانی سے ملی
آنسوئوں والا فقط اک ہار گردن میں رکھا
ہونٹ ہیٹر پہ رکھے تھے اس کی یادوں پر نہیں
تھا جہنم خیز موسم غم کے جوبن میں رکھا
سانپ کو اس نے اجازت ہی نہیں دی وصل کی
گھر کے دروازے سے باہر دودھ برتن میں رکھا
میں اسے منصور بھیجوں کس لیے چیتر کے پھول
جس نے سارا سال مجھ کو غم کے ساون میں رکھا
منصور آفاق