ٹیگ کے محفوظات: بدو

خود کو کھو دیجئے سُرخ رُو کیجئے

آرزو کیجئے جُستُجو کیجئے
خود کو کھو دیجئے سُرخ رُو کیجئے
رُوح کی مانیے ہاؤ ھُو کیجئے
آئینہ لیجئے رو بَرو کیجئے
دل سے تنہائی میں گفتُگو کیجئے
اُس سے مِلنا ہو گر تَو وضو کیجئے
عشق وہ چیز ہےکُو بَہ کُو کیجئے
آج ضامنؔ سے کچھ دُو بَدُو کیجئے
ضامن جعفری

جُستُجو کیجئے

آرزو کیجئے
جُستُجو کیجئے
خود کو کھو دیجئے
سُرخ رُو کیجئے
رُوح کی مانیے
ہاؤ ھُو کیجئے
آئینہ لیجئے
رو بَرو کیجئے
دل سے تنہائی میں
گفتُگو کیجئے
اُس سے مِلنا ہو گر
تَو وضو کیجئے
عشق وہ چیز ہے
کُو بَہ کُو کیجئے
آج ضامنؔ سے کچھ
دُو بَدُو کیجئے
ضامن جعفری

کہ اے شمعِ فرقت نہ ہم ہونگے نہ تو ہو گی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 98
اگر وہ صبح کو آئے تو کس سے گفتگو ہو گی
کہ اے شمعِ فرقت نہ ہم ہونگے نہ تو ہو گی
حقیقت جب تجھے معلوم اے دیوانہ خو ہو گی
جب ان کی جستجو کے بعد اپنی جستجو ہو گی
ملیں گے ہو بہو تجھ سے حسیں آئینہ خانے میں
کسی سے کچھ نہ کہنا ورنہ تم سے دو بدو ہو گی
مآلِ گل کو جب تک آنکھ سے دیکھا نہیں ہو گا
کلی کو پھول بن جانے کی کیا کیا آرزو ہو گی
دلِ مضطرب تو اس محفل میں نالے ضبط کر لے گا
مگر اے چشمِ گریاں تو بہت بے آبرو ہو گی
حریمِ ناز تک تو آگیا ہوں کس سے کیا پوچھوں
یہاں جلوہ دکھایا جائے گا یا گفتگو ہو گی
جنھیں اے راہبر لٹوا رہے ہیں راہِ منزل میں
خدا معلوم ان کے دل میں کیا کیا آرزو ہو گی
ہمارا کیا ہے ارمانِ وفا میں جان دے دیں گے
مگر تم کیا کرو گے جب تمھیں یہ آرزو ہو گی
یہ بلبل جس کی آوازیں خزاں میں اتنی دلکش ہیں
بہاروں میں خدا معلوم کتنی خوش گلو ہو گی
قمر سنتے ہیں تو شیخ صاحب آج توڑیں گے
سجے گا میکدہ آرائشِ جام و سبو ہو گی
قمر جلالوی