ٹیگ کے محفوظات: بدم

کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر

رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر
بے نشاں ہے سفر رات ساری پڑی ہے مگر
آ رہی ہے صدا دم بدم صبر کر صبر کر
تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک
کوئی دِن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر
تیرے قدموں سے جاگیں گے اُجڑے دِلوں کے ختن
پاشکستہ غزالِ حرم صبر کر صبر کر
شہر اُجڑے تو کیا، ہے کشادہ زمینِ خدا
اِک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر
یہ محلاتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں اِن کے علم صبر کر صبر کر
دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر
لہلہائیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں
کھل کے برسے گا ابرِ کرم صبر کر صبر کر
کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے جی جلا ڈھنگ سے
دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر
پہلے کھل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریرِ قلم صبر کر صبر کر
درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر
دیکھ ناصر زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بھول جا اُس کے قول و قسم صبر کر صبر کر
ناصر کاظمی

جن پہ برسائے گئے سنگِ ستم، کتنے ہی تھے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 68
اُس جگہ تنہا نہ تھے تم اور ہم، کتنے ہی تھے
جن پہ برسائے گئے سنگِ ستم، کتنے ہی تھے
اُنگلیوں سے جو نشانِ فتح لہراتے ہوئے
بڑھ رہے تھے سوئے مقتل دم بدم، کتنے ہی تھے
کر سکو گے صفحۂ منظر پہ دھبوں کا شمار
وُہ جو کٹ کے گر گئے دست و قلم کتنے ہی تھے
گا ہے شب روشن ہوئی اور گا ہے دن تیرہ ہوا
آنکھ کو حیرت کے یہ ساماں بہم کتنے ہی تھے
خود سے مُنکر کیا ہوا بس سلسلہ ہی چل پڑا
میرے دورِ ہست میں دورِ عدم کتنے ہی تھے
نارسائی کام آئی، ورنہ سلجھاتے کہاں
گیسوئے سرکشن کہ جس میں پیچ و خم کتنے ہی تھے
آفتاب اقبال شمیم