ٹیگ کے محفوظات: بتول

دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسولؐ کا

دیوان دوم غزل 665
جلوہ نہیں ہے نظم میں حسن قبول کا
دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسولؐ کا
حق کی طلب ہے کچھ تو محمدؐ پرست ہو
ایسا وسیلہ ہے بھی خدا کے حصول کا
مطلوب ہے زمان و مکان و جہان سے
محبوب ہے ملک کا فلک کا عقول کا
احمدؐ کو ہم نے جان رکھا ہے وہی احد
مذہب کچھ اور ہو گا کسی بوالفضول کا
جن مردماں کو آنکھیں دیاں ہیں خدا نے وے
سرمہ کریں ہیں رہ کی تری خاک دھول کا
مقصود ہے علیؓ کا ولی کا سبھی کا تو
ہے قصد سب کو تیری رضا کے حصول کا
تھی گفتگوے باغ فدک جڑ فساد کی
جانے ہے جس کو علم ہے دیں کے اصول کا
دعویٰ جو حق شناسی کا رکھیے سو اس قدر
پھر جان بوجھ کریے تلف حق بتولؓ کا
پرواے حشر کیا ہے تجھے میر شاد رہ
ہے عذر خواہ جرم جو وہ تجھ ملول کا
میر تقی میر

تمہارے راستے میں روشنی ہو پھول ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 276
یہ دعا کے چند حرف بس قبول ہوں
تمہارے راستے میں روشنی ہو پھول ہوں
گرفت میں کائناتِ ذات کا خرام
تمہارے ذہن پر علوم کے نزول ہوں
لغاتِ کن فکاں کھلے تمہارے نام سے
کتابیں رازداں سخن سرا رسول ہوں
ہمیشہ ہم قدم رہے بہار رقص میں
اداس چاند ہو نہ گل رتیں ملول ہوں
وہاں وہاں پہ تم سے زعفران کھل اٹھیں
جہاں جہاں پہ خار ہوں ببول ہوں
ہوں منزلِ یقیں کے اونٹ دشتِ وقت میں
خیامِ صبر و انتظار باشمول ہوں
انہیں بھی دیکھنا ضمیرِ عالمین سے
دل و دماغ کے جو طے شدہ اصول ہوں
ہزار حاصلی سہی قیام ، موت ہے
سدا نئے سفر ، نئے حصول ہوں
رکو تو گردشیں رکیں طلسمِ چاک کی
چلو تو چاند تارے راستے کی دھول ہوں
بہشت ماں کی قبر ہوتمہارے کام سے
وہ فاطمہ تھی اس پہ مہرباں بتول ہوں
منصور آفاق