ٹیگ کے محفوظات: باولوں

وہ خاک لے گا مِری خامیوں میں دلچسپی

فلک نے لی ہے سدا کامِلوں میں دِلچسپی
وہ خاک لے گا مِری خامیوں میں دلچسپی
میں بحرِ زیست میں خُوش ایک موجِ آوارَہ
جسے کبھی نہ رہی ساحلوں میں دِلچسپی
عجیب لوگ ہیں ہم بے نیازِ مقتولین
ہمیں رہی ہے فقَط قاتلوں میں دِلچسپی
جنابِ میرؔ نے کیِں اُس سے اِس قَدَر باتیں
کہ چاند لینے لگا باولوں میں دِلچسپی
مَزید ہو مِرے قارونِ حُسن کی دَولت
اُسے سَدا سے ہے ہم سائلوں میں دِلچسپی
ہماری سادگیِ دِل کا مَشوَرَہ یہ ہے
حضور! لیجیے سادَہ دِلوں میں دِلچسپی
سکونِ قلب و نظر ہی نہ جب رَہا ضامنؔ
ہمَیں بھی پِھر نہ رہی محفلوں میں دِلچسپی
ضامن جعفری

چھُپا ہے کون وہاں ، کس کے قاتلوں میں سے ہے

چھَنا جو رنگِ شَفَق گَہرے بادلوں میں سے ہے
چھُپا ہے کون وہاں ، کس کے قاتلوں میں سے ہے
جو حُسن و عشق و تغزل کے کاملوں میں سے ہے
سُنا ہے چاند کو تکتا ہے باولوں میں سے ہے
امیرِ شہر نے رکھ دی نوازنے کی یہ شرط
ثبوت لاؤ کہ یہ شخص جاہلوں میں سے ہے
رکھا ہے خارِ تمنا کی تشنگی کے لئے
بچا جو آبلہ پاؤں کے آبلوں میں سے ہے
یہاں تو نطق و سَماعَت کا فاصلہ ضامنؔ
یہ لگ رہا ہے کہ صدیوں کے فاصلوں میں سے ہے
ضامن جعفری