ٹیگ کے محفوظات: بالکل

ہوا کام مشکل توکل کیا

دیوان چہارم غزل 1315
تجاہل تغافل تساہل کیا
ہوا کام مشکل توکل کیا
نہیں تاب لاتا دل زار اب
بہت ہم نے صبر و تحمل کیا
زمین غزل مِلک سی ہو گئی
یہ قطعہ تصرف میں بالکل کیا
جنوں تھا نہ مجھ کو نہ چپ رہ سکا
کہ زنجیر ٹوٹی تو میں غل کیا
نہ سوز دروں فصل گل میں چھپا
سر و سینہ سے داغ نے گل کیا
ہمیں شوق نے صاحبو کھو دیا
غلاموں سے اس کے توسل کیا
حقیقت نہ میر اپنی سمجھی گئی
شب و روز ہم نے تامل کیا
میر تقی میر

درمیاں تو ہو سامنے گل ہو

دیوان دوم غزل 916
منعقد کاش مجلس مل ہو
درمیاں تو ہو سامنے گل ہو
گرمیاں متصل رہیں باہم
نے تساہل ہو نے تغافل ہو
اب دھواں یوں جگر سے اٹھتا ہے
جیسے پرپیچ کوئی کاکل ہو
نہ تو طالع نہ جذب پھر دل کو
کس بھروسے پہ ٹک تحمل ہو
لگ نہ چل اے نسیم باغ کہ میں
رہ گیا ہوں چراغ سا گل ہو
ادھ جلا لالہ ساں رہا تو کیا
داغ بھی ہو تو کوئی بالکل ہو
طول رکھتا ہے درد دل میرا
لکھنے بیٹھوں تو خط ترسل ہو
ہوجو مجھ بادہ کش کے عرس میں تو
جبکہ قلقل سے شیشے کی قل ہو
دیر رہنے کی جا نہیں یہ چمن
بوے گل ہو صفیر بلبل ہو
مجھ دوانے کی مت ہلا زنجیر
کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر غل ہو
منکشف ہو رہا ہے حال میر
کاش ٹک یار کو تامل ہو
میر تقی میر