اب وہ لوگ جنھوں نے میرے بیٹوں کا ۔۔۔ خون پیا۔۔۔
(میرے بیٹے تو سب ان کے بھائی تھے)۔۔۔
اپنے وہ لوگ جنھوں نے میرے حصے کے روزینے کو ۔۔۔ اپنے جبڑوں میں ۔۔۔ بانٹ لیا
(میرا حصہ تو تھا صرف اک شیریں نام کا ذکر)۔۔۔
اب وہ اپنے دل میں سمجھتے ہیں ۔۔۔ دنیا ان کی ہے۔۔۔
لیکن کبھی اگر وہ دیکھیں تو ۔۔۔ میری بانہیں نہیں تھکیں ۔۔۔
کبھی اگر وہ دیکھیں تو ۔۔۔ ان کے انھی قدموں کے تلے۔۔۔
میرے الگ الگ دو ہاتھوں کی اک جڑی ہوئی مضبوط ہتھیلی ہے۔۔۔
اسی ہتھیلی پر ہے ان کا سب تن و توش۔۔۔
وہ اپنے قدموں کی طرف اک مرتبہ دیکھیں تو ۔۔۔ انھیں وہ سنگھٹ بھی نظر آئے جو۔۔۔
ان ہاتھوں کے قطع کے درپے ہے۔۔۔
لیکن وہ
دیکھتے ہیں بس اوپر اوپر، اس آکاش کی سمت۔۔۔
وہ آکاش جو ان کی کھوپڑیوں کے نیچے، ان کے بھیجوں پر
نیلے رنگ کی چربی ہے۔۔۔
کس سے کہوں میں
میرے یہ بیٹے بھی کیسے ہیں؟
مجید امجد